تحریر: عفت زندگی احساسات کو جذبات کی ایک کڑی ہے معاشرے میں رہنے والی آدم کی اولاد خواہ وہ کسی بھی مذہب ،فرقے یا نسل سے تعلق رکھتی ہو جذبات واحساسات سے مبرا نہیں فطرت ،سرشت جن پہ اس کی ذات کا خمیر وہ سب ایک جیسی ہے ۔ہر انسان فطرتِ اسلام کے مطابق پیدا ہوتا ہے ،چونکہ ہم سب آدم کی جد سے ہیں اور آدم مسلمان تھے تو ہر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہوتا ہے ہم اس بات کو ہوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نطفے سے وجود تک وہ مسلمان ہوتا ہے اور پھر جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے والدین جس مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں اس کا سبق دیتے ہیں اور وہ وہی مذہب اختیار کر لیتا ہے ۔پیدائش کے بعد اس کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا اس کی روح کو اس خوش خبری سے آشنا کرتی ہے کہ وہ ایک مسلمان کے گھر جنم لے چکا ہے۔
اس طرح ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کے مطابق اس کی تکمیل و تعمیر کرتے ہیں ،بنیادی طور پہ بچہ پاکیزہ اور معصوم ہوتا ہے اس کے اردگرد اور معاشرے کا ماحول اس پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی شخصیت میں رحجان کو جنم دیتا ہے اور یہاں اس کی شخصیت کی متنوع عمارت تعمیر ہوتی ہے اس تعمیر میں خامی یا کوتاہی شخصیت میں توازن نہ ہونا ،مثبت کی جگہ منفی سوچوں کی اجارہ داری ،شہرت و دولت کی ہوس ،جیسی ناسور نما بیماریوں کو جنم دیتا ہے ۔جو کسی بھی انسان کی شخصیت کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور یہی غیر متوازن پن معاشرے میں پیدا ہونے والے جرائم اور نا ہمواریوں کا سبب ہے۔
دنیا اب گلوبل ولیج کی صورت کی صورت اختیارکر گئی ہے جہاں سائنس نے ترقی میں چار قدم آگے بڑھائے وہاں مثبت کے ساتھ منفی سوچ نے بھی چار قدم آگے بڑھادیے ٹی۔وی اخبار اور میڈیا ایسے ایسے جرائم سے باخبر کرتا ہے کہ دل یا وحشت یا وحشت کا نعرہ بلند کرتا ہے معاشرتی بد امنی اور اور برائیوں کی وجہ سے جرائم کے ایسے ایسے طریقے منظر ِعام پہ آتے ہیں جیسے کھانے کی ڈشوں کی ریسیپیز، افسوسناک امر جو دامن گیر ہے وہ یہ کہ ان جرائم میں ملوث جاہل طبقہ نہیں بلکہ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ہے جو جرائم کے نت نئے جدید طریقے ایجاد کر رہا ہے۔
Crime
لوٹ مار ہتھیار کے علاوہ موبائل اور انٹرنیٹ کے زریعے بھی کی جا رہی ہے ۔اور ایسے جرائم کا درپردہ مقصد صرف اور صرف دولت کا حصول ہے ۔ہم ہمیشہ مجرم کو ہی برا کہہ کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں کبی ان وجوہات پہ غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے جو ان نوجوانوں کو مجرم بناتی ہیں کیا صرف وہی اس کے ذمہ دار ہیں ؟؟میں ذاتی طور پہ اس سے متفق نہیں ہوں ناانصافی ،ظلم اور نا انصافی ہمیشہ بغا وت کو جنم دیتی ہے ۔سو ان تمام حالات کے ذمے دار ہم ،معاشرہ اور حکومت ہے سال اٹھتا ہے کیسے ؟ تو زرا اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں ساتھ ساتھ معاشرے کے نظام کو بھی مد ِنظر رکھیں۔
سب سے پہلے نمبر پہ قصور وار ہمارا تعلیمی نظام جو طبقاتی فرق کے ساتھ چل رہا۔ امیر کا بچہ آکسفورڈ سلیبس اور بیکن ہائوس سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کر تا ہے وہ اقبال اور قائد کے بجائے ملٹن اور شیکسپئر کو پڑھتا ہے جبکہ غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں گورنمٹ سلیبس پڑھتا ہے جو کہ اگرچہ بہت معلوماتی ہے مگر ایک استاد کو پرائمری تک کی پانچ کلاسیں دی جاتی ہیں ۔کیا گورنمنٹ کی عقل ِکل کام کرتی ہے کہ ایک استاد بیک ِوقت پانچ جماعتوں کے بچوں پہ توجہ دے سکتا ؟کیا اس کا ذہنی ارتکاز کسی آسمان سے اتری مخلوق کا سا ہے کہ وہ ہر بچے پہ توجہ دے پائے اور اس پہ ہائے رے معاملہ فہمی کہ کسی گورنمنٹ ٹیچر کا بچہ اس کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ انگلش میڈیم سکول میں پڑھتا ہے کیوں ؟؟؟۔
اس کیوں کا جواب ہر خاص و عام جانتا ہے ان کے نا م گورنمنٹ سکول میں درج ہوتے ہیں تاکہ گورنمنٹ کو ملنے والی سہولیات اور انعامات سے مستفید ہو سکیں جبکہ تعلیم وہ انگریزی اسکولوں میں حاصل کرتے ہیں ہاں بوقت ِامتحاں ان کو مستقبل کے راہنما نقل اور سفارش فراہم کر کے احسن طریقے سے اپنی روزی حلال کرتے ہیں جماعت پنجم تا ہشتم یہ کام باآسانی ہو جاتے ہیں اگلی کلاسوں میں ذرا سختی ہوتی ہے مگر وہ کیا ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔ہمارے گورنمنٹ کالجز کے لیکچرار حضرات اکیڈمیوں کے نام پہ تعلیمی بازار سجائے بیٹھے ہیں اور اس کا شمار وسیع کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
Students
بس کالج میں داخلہ لے لو اورپھر پورے سال کالج کی شکل نہ دیکھو بس اکیڈمی آجائو اور وہاں فیس دو آپ کی حاضریاں بھی پوری ،اور پھر امتحانات کے قریب فیس کے نام پہ کچھ رقم اور پریکٹکل کے نمبر بھی پورے لگ جائیں گے ۔اور اس سے بڑا المیہ ان غریب طلباء وطالبات کے ساتھ جو اکیڈیموں تک رسائی نہیں رکھتے بچارے باقاعدگی سے کالج جاتے ہیں وہاں فارغ پھرتے نظر آتے ہیں استاد صاحبان آتے ہیں حاضریاں لگا کر اپنی اکیڈیمیوں کو لوٹ آتے ہیں تنخواہ بھی پوری اور اکیڈمی کی کمائی الگ ۔یہ ہے ہمارا نظام ِ تعلیم اور اساتذہ کا کردار پھر کانٹے بو کر پھولوں کی توقع عبث ہے۔کہانی بس یہیں اختتام پذیر نہٰیں ہوتی۔
جب ڈگری لینے کے بعد نوکری کا مرحلہ آتا ہے تو قسمت یہاں بھی وار کرنے سے نہیں چوکتی ،جوتے چٹخانے کے باوجود نوکری مغرور محبوبہ کی طرح روٹھی رہتی ہے ان سے خاص جن کے پاس اعلی ڈگری تو ہوتی ہے سفارش اور رشوت نہیں سو باالاخر ان کی مثبت سوچ آہستہ آہستہ منفی سوچ میں ڈھل کر معاشرے سے انتقام کا روپ دھار لیتی ہے اور وہ محرم سے مجرم بن جاتے ہیں ۔سوچیں قصور کس کا ؟؟ رہا بیوروکریٹ اور برگر طبقہ جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ منھ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوتا ہے اور ہر کتے کا نام ٹامی ہوتا ہے ۔حکومت ،سیاست تو اب نسل در نسل تسلسل کا درجہ اختیار کر چکی ہے ۔غرہب عوام تو محض ووٹ کا شوکاز ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔تعلیم اور سیاست کا دور دور تک کوئی وااسطہ نہیں آپکو یاد ہوگا جب بی۔اے کی شرط عائد کی گئی تھی تو ہمارے سیاسی شہ سواروں نے وہ جلوے دکھائے کہ قوم شرم سے زمین میں گڑ گئی اور ہاسا وکھرا پئیا نہ اپنا قومی ترانہ آتا تھا اور نہ سورت اخلاص۔
Education
سو حالات نے کروٹ لی اور تعلیم کے عام ہونے کا یہ حال ہو گیا کہ پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری کا حصول بھی مشکل نہ رہا گلی گلی میں مشکل مشکل ناموں والی انگریزی یونیورسٹیاں کھل گئیں ہیں جو بھاری فیسیں لے کر آپکو ایم ۔فل سے لے کر پی۔ ایچ ڈی بھی کروا دیں گی آپ جائیں نہ جائیں بس امتحان میں آکر پرچے دے جائیں باقی ان کا کام آپکو کچھ آتا ہو یا نہ کوئی مسئلہ نہیں واقعی آگے ان کا کام ہے ۔لو جی ہم نے خواندگی میں اضافہ بھی کر لیا اور صاحب ِ ڈگری بھی ہو گئے۔ کاش کہ ہم صاحب ایمان اور صاحبِ عقل بھی ہوتے تو آج ان تمام مسائل سے دوچار نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔