تحریر: ایم ایم علی ایک بار پھر اسلام، پاکستان،امن اور تعلیم کے دشمن چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پہ حملہ آورہوئے ہیں، آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اب وہ نسبتاً آسان ہدف کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں آرمی پبلک سکول کے بعد یہ دوسرا بڑا حملہ ہے جو تعلیمی ادارے پر ہوا ہے، دہشت گرد ضرب عضب کے کامیاب آپریشن کے بعد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب بھی پاکستان میں خوف کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔
بادی النظرمیںپچھلی ایک دہائی سے وطن عزیزکو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے ان گنت دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں مائوں کی گودیں اجڑ چکی ہیں سینکڑوں بہنیں اپنے بھائی کھو چکی ہیںاور سینکڑوں سہاگنوں کے سہاگ اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑ چکے ہیں اس کے علاوہ سینکڑوں افراد اپنے جسم کے کئی اعضا سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو چکے ہیں لیکن آفرین ہے اس قوم پر کہ جس نے اس بدترین دہشت گردی کا سامنا بھی نہایت ہی ہمت و استقلال سے کیا ہے، بزدل دہشت گرد لاکھ کوششوں کے باوجود اس قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔
Terrorism
جب سفاک دہشت گردوں نے دیکھا کہ یہ قوم کسی صورت بھی ہماری سفاکانہ دہشت گردی سے حوصلہ ہار نے والی نہیں توان سفاک دہشت گردوں نے پہلے تو آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں پر حملہ کیا اور پاکستانی قوم کے حوصلے پست کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے نے نہ صرف سیاسی و عسکری قیادت کو ایک پلیٹ فارم پہ لا کھڑا کیا بلکہ پوری پاکستانی قوم یک جان اور یک زبان ہوکر سفاک دہشت گردوں کے سامنے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور پھر دن بدن یہ سفاک دہشت گرد کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔
باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گرد پاکستانی قوم کو ایک بار پھر آرمی پبلک سکول جیسا زخم دینے آئے تھے لیکن اس بار ، وہ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوئے اور پاکستان کے سیکورٹی ادروں کی بروقت اور موثر کاروائی نے ان دہشت گردوں کے تمام ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ چار دہشت گرد تھے جنہوں نے اپنے جسموں پر خود کش جیکٹیں باندھ رکھی تھیں اور یہ خود کار اور جدید اسلحے سے لیس تھے بظاہر تو ان کا ارادا یونیورسٹی کے اند ر بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہچانے کا تھا لیکن سیکورٹی اداروں کی بروقت جوابی کاروائی نے ان دہشت گردوں کو بڑی کاروائی کرنے کا موقع ہی نہ دیا اور چاروں کو جہنم واصل کر دیا یہاں ایک بات اور قابل ذکر یہ ہے کہ ان چاروں دہشت گروں میں سے کوئی ایک بھی اپنی خودکش جیکٹ کو بلاسٹ نہیں کر سکا اور اگر خود کش جیکٹس بلاسٹ ہو جاتیں تو جانی نقصان میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا۔
قارئین کرام! ہمارے ملک میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے تو پورے ملک میں سیکورٹی سخت کر دی جاتی ہے ،لیکن پھر چند ہفتوں بعد سیکورٹی معمول پر آجاتی اور پھر کوئی ناخوشگوار سانحہ ہو جاتا ہے ،میڈیا نیوز کے مطابق کچھ دن پہلے سے ہی اسطرح کی خبریں گردش کر رہی تھیں کے باچا خان یونیورسٹی سمیت خیبر پختون خواہ کے دیگر تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کا خطرہ ہے ، اور دہشت گرد کسی تعلیمی ادارے کو اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود باچا خان یونیورسٹی میں سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کئے گئے ؟ کسی بھی دہشت گردی کے واقعہ کے بعد حکام کی جانب سے کہا تو جاتا ہے کہ سیکورٹی کے انتظامات مکمل تھے لیکن اگر سیکورٹی مکمل اور سخت ہو تو پھر اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
یہاں ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ اس بار تحریک طالبان کی جانب سے بھی اس واقعہ میں ملوث ہونے کی تردید کی گئی ہے اور انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ،لیکن دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا میڈیا تو ہر حال میں اس واقعہ کا ذمہ دار تحریک طالبان کو ٹھہرانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ،یار لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کا تحریک طالبان کو ہر حال میں اس واقعہ میں ملوث کرنے کی کوشش کرنا چور کی داڑھی میں تنکے والی بات ہے ،کیونکہ یار لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ پٹھانکوٹ واقعہ پر بھارت کی طرف سے ردعمل بھی ہوسکتا ہے اور ویسے بھی پٹھانکوٹ میں حملے کے بعد بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کو کھلی دھمکی دی تھی لیکن ہماری حکومت اور سیکورٹی ادارے ناجانے کیوں اس دھمکی کو نظر انداز کر گئے۔
Bacha Khan University Attack
قارئین ،اس بات میں تو کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے بھارت کی خفیہ ایجنسی (را) پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتی ہے اور بھارت پاکستان میں دہشت گروں کی حمایت کرتا ہے اس بات کے ثبوت بھی ہماری حکومت اور سیکورٹی اداروں کے پاس موجود ہیں سا بقہ وزیر داخلہ رحمان ملک کا بھی کہنا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی حملے میں را ،ملوث ہے، لیکن ان سب کے باوجود ہم آج بھی بھارت سے اچھے تعلقات کے خوہش مند ہیں ،اس بات سے تو کسی اختلاف نہیں کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جانا چاہئے لیکن جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی جائے یہ بات ہر ذی شعور کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس کے بر عکس اگر بھارت میں کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہو جائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتا اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتا ہے۔
بھارت کی ایجنسی (را) نے افغانستان میں باقاعدہ ٹرینگ کیمپ بنا رکھے ہیں جہاں دہشت گروں کو تیار کیا جاتا ہے اور پھر ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا اور پھر کرائے کے ٹٹووں کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کروائی جاتی اور یوں اصل دشمن نظروں سے چھپ جاتا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کے جس طرح سیاسی و عسکری قیادت اور عوام دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوئی ہے اسی طرح ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف بھی متحد ہو کر ان کو منہ توڑ جواب دے اور اس میں پاکستانی میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب کو مل کر دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ کیونکہ جتنے بڑے مجرم دہشت گرد ہیں اتنے ہی بڑے مجرم ان کی پشت پناہی کرنے والے بھی ہیں۔
قارئین کرام! باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ٹائمینگ بھی بہت اہم ہے یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سعودی عرب ایران میں تنازع کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کر رہی تھی اور سعودیہ اور ایران کے دورے پر تھی پاکستان مصالحتی کردار کو پوری دنیا میں سرا جارہا تھا اور انٹر نیشنل میڈیا کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان اور سپہ سالار پاکستان کے دورے کو نہائت ہی کامیاب دورہ قرار دیا جا رہا تھا ،ایسے میں اس واقعہ نے تمام عالمی میڈیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔
یہاں پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو نہیں چاہتیں تھیں کہ عرب ایران میں معاملات حل ہوں اور دونوں ملک کسی بڑی کاروئی سے باز رہیں ، پاکستان نے تو اپنا فرض سمجھتے ہو ے عرب ایر ان تنازع میں مصالحتی کردار بخوبی سر انجام دیا ،لیکن اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جو قوتیں کسی بھی صورت عرب اور ایران میں مصالحت نہیں چاہتی تھیں کیا وہ پاکستان کے اس مصالحتی کردار کو برداشت کر پائیں گی۔ قارئین کرام! چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ صرف ایک تعلیمی ادارے پر حملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان پر حملہ ہے ،اور دہشت گردوں کو اس کا جواب دینے کیلئے ایک بار پھر پورے پاکستان کو متحد ہونا ہو گا۔