داعش پاکستان میں حقیقت یا فسانہ

ISIS

ISIS

تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد
گزشتہ کچھ دنوں سے خبروں میں داعش کی موجودگی کاذکر بڑے جو ش و خروش سے کیا جا رہا ہے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے کارروائی کرتے ہوئے ڈسکہ سے ڈسکہ سے کچھ نوجوانوں کو گرفتار کیا تب اداروں پر یہ انکشاف ہوا کہ داعش پاکستان میں نہ صرف سرگرم عمل ہے بلکہ اس کا مضبوط نیٹ ورک بھی موجود ہے۔ اس کے فوراً بعد لاہورسے کچھ خواتین کی اطلاع ملی کہ وہ گھر سے غائب ہیں جن کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ وہ اپنے بچوں سمیت داعش میں شمولیت کے لیے شام روانہ ہو چکی ہیں۔

اسی طرح انکشاف ہوا کہ سی بی آر کے ایک آفیسر کا تعلق بھی داعش سے ہے اور وہ داعش کے لیے فنڈنگ ، آن لائن بھرتی کا کام کرتا ہے۔ سی ٹی ڈی کی ان رپورٹس کو تقویت اس وقت ملیں جب صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اعتراف کیا کہ کچھ لوگوں کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں کہ وہ داعش کے لیے کام کرتے ہیں۔

یہ خبریں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب کراچی میں رینجرز اختیارات کے حوالے سے وفاقی حکومت ( یا کم از کم وزارت داخلہ ) اور صوبائی حکومت آمنے سامنے تھے ۔ہر ایک زبان پر یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ کیا کراچی میںرینجرز کی مسلسل کاروائیوں کے بعد امن و امان کی بہتر صورت حال اسی طرح برقرار رہے گی یا پھر صوبائی حکومت کی ہٹ دھرمی کے بعد کراچی کے عوام پھر سے دہشت گردی کی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیئے جائیں گے ۔ایسے موقع پر داعش کی پاکستان میں موجودگی ایک ایسا ایشو تھا جس نے کراچی کے ایشو کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

Operation Zarb e Azb

Operation Zarb e Azb

ایک تو داعش بین الاقوامی ایشو تھا اس سے بڑھ کر کچھ لوگوں کے لیے کراچی میں رینجرز تنازعہ کو میڈیا سے ہٹانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اورموقع نہیں ہو سکتا تھا اس لیے تمام ٹاک شوز کا سرگرم ایشو داعش کی پاکستان میں موجودگی بن گیا۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نہ صرف متحد ہے بلکہ اپنے عزم میں بہت پختہ نظر آتی ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ بہت سے ایشوز پر عسکری و سیاسی قیادت میں اختلافات بھی موجود ہیں جن میں سب سے اہم ایشو آپریشن ضرب عضب ہے جس کے تحت کراچی آپریشن کا آغاز کیا گیا کراچی جو پاکستان کی اقتصادیات کے لیے ایک انتہائی حساس حیثیت رکھتا ہے گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں رغمال بنا ہوا تھا کراچی چونکہ سرمایہ کاری کا مرکز تھا اس لیے دہشت گردوں کو سرمایہ کی خطیر رقم کراچی میں اغواء برائے تاوان اور بھتہ سے وصول ہوتی تھی۔

اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح آپریشن ضرب عضب کے تحت شمالی علاقوں اورافغان سرحد کے ساتھ فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے اسی طرح کراچی میں بھی دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے یہ آپریشن بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کیا جائے تاہم جب آپریشن شروع ہوا تو انکشاف ہوا کہ کچھ سیاسی طاقتیں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر تو حملے کیے جائیں لیکن اس کے سہولت کاروں کو آزاد چھوڑ دیا جائے ۔اس پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے وفاقی حکومت پر دبائو بڑھتا گیا اور وفاقی حکومت نے بھی یہاں مصالحتی پالیسی کے تحت ایک طرف تو سیاسی جماعتوں کو راضی رکھا اور دوسری جانب رینجرز تنازعہ میں صرف بیانات کی حد تک کام کیا جبکہ عملی طور پر سیاسی جماعتوں کوریلیف دینے کی کوشش کی گئی عوام اس نورا کشتی سے مطمئن رہی۔

اب آئیں ذرا داعش کے ایشوکی طرف عسکری قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ پاکستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر پنجاب میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے غلط فہمیاںپیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ایک نجی ٹی وی پر چلنے والی سی ٹی ڈی کی رپورٹ سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس رپورٹ میں انتہائی نچلے درجے کی معلومات کو لے کر جوڑ دیا گیا ہے ۔ جہاں تک داعش کی موجودگی کی بات ہے تو کوئی ایسی منطق موجود نہیں جس کے تحت داعش کا وجود پاکستا ن میں ہو یا اس حد تک ہو کہ پاکستان اپنے لیے خطرہ محسوس کرے۔

ہمارے ہمسایہ ملک میں القاعدہ اپنے پورے انتظام و انصرام کے ساتھ موجود تھی جس کو طالبان حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی بیرونی ممالک میں القاعدہ کے لیے بھاری فنڈنگ بھی کی جاتی تھی نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کو القاعدہ سے تھا ۔جو افغانستان سے پاکستان منتقل ہو رہی تھی تاہم پاکستان کے عسکری اداروں نے اپنی کامیاب کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو القاعدہ کے لیے جنت نہ بننے دیا ۔ ان کارروائیوں کے نتیجہ میں تحریک طالبان پاکستان کا وجود عمل میں آیا اور اس کو بھی نہ صرف مشرقی و مغربی سرحدوں کے پار سے مختلف ایجنسیوں کی جانب سے حمایت اور سرمایہ فراہم کیا جاتا بلکہ امریکہ و دیگر طاقتوں کی جانب سے خفیہ حمایت ملتی کیونکہ ان کے خیال میں افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا لہٰذا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے تحریک طالبان کی ہر طرح سے مدد کی گئی یہی وجہ ہے کہ تحریک طالبان نے افغانستان میں امریکی اہداف کی بجائے پاکستان کے اداروں ،مساجد ،بازاروں، اقلیتی عبادت گاہوں کو اپنا ہدف بنا لیا ۔جس پر اگرچہ بہت دیر سے ضرب عضب کا آغاز کیا گیا لیکن اس کے باوجود عسکری اداروں کی ضرب کاری سے تحریک طالبان کے ٹھکانے تباہ کر دئے گئے اور اس کے رہنما ہمسایہ ملک میں فرار ہونے لگے۔

آج کا پاکستان کچھ دیر سے پہلے پاکستان کی نسبت ذیادہ محفوظ ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میںدہشت گردی کی کارروائیوں میں 70فیصد سے زائد کمی آ چکی ہے اور اب دہشت گرد واضح طور پر شکست خوردہ دکھائی دے رہے ہیں اور وہ آسان ہدف کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم جس طرح سے عسکری ادارے کام کر رہے ہیں اس کے بعد یقینا اس پر بھی جلد ہی قابو پا لیا جائے گا ۔ اس لحاظ سے اگر تحریک طالبان اور القاعدہ جیسی مضبوط تنظیمیں جن کے نہ صرف ٹھکانے یہاں موجود تھے بلکہ افرادی قوت اور کثیر سرمایہ بھی میسر تھا وہ پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکیں تو داعش کس طرح سے قدم جما سکتی ہے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ داعش کے لیے پاکستان میں کیا مفادات ہو سکتے ہیں ۔جب تحریک طالبان بنی تھی تو پاکستان کے عوام گو مگو کی کیفیت میں تھے تاہم اب دہشت گردوں کے اصل چہرے پہچان چکی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف ایک فضاء پیدا ہو چکی ہے۔

Taliban

Taliban

ایسی صورت میں داعش کس طرح پاکستان میں اپنے قدم جما سکتی ہے جبکہ داعش کو پاکستان سے نہ تو افرادی قوت چاہیے نہ ہی سرمایہ۔البتہ داعش کے لیے سب سے زرخیز ملک افغانستان اور بھارت ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں اسے افرادی قوت مل سکتی ہے جو عربی بول اور سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہاں القاعدہ کے ساتھ رہ کر بیشتر لوگ عربی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں اور داعش کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو جنگجو بھی ہوں اور عربی بھی جانتے ہوں۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ افغان طالبان سے جنگ میں ناکامی کے بعد افغان اداروں نے کود داعش کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائیاں کریں اور کئی مواقع پر داعش اور افغان طالبان کی آپس میں جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔داعش کے ان مقامی گروپوں کے ذریعے افغان طالبان کو کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی حکومت کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے مظلوم مسلمانوں کی بڑی تعداد بھارت حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی انتہا پسند تنظیموں شیو سینا و دیگر سے انتہائی تنگ ہیں اور داعش ان لوگوں کو استعمال کر سکتی ہے۔

اس وقت ایشیا کے لیے داعش کے امیر کے لیے بھی بھارتی شہری کا نام لیا جا رہا ہے۔ ان حقائق کے بعدیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ پاکستان میں داعش کی موجودگی ایک فسانہ ہو سکتی ہے۔ داعش کی موجودگی کی صورت سوشل میڈیا کے ذریعے تو ممکن ہے تاہم داعش کسی طرح بھی پاکستان میں اپنے قدم نہیں جما سکتی ہوکیونکہ نہ تو اس کے مفادات ہیں اور نہ ہی اس کی ضروریات پاکستان سے پوری ہو سکتی ہیں۔

حکومت اگر واقعی داعش کے خلاف کچھ عملی اقدامات کرنا چاہتی ہے تو سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ آپریشن ضرب عضب کو کامیاب کرنے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تمام اداروں کا مربوط ہونا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنا بہت ضروری ہے ایسے موقع پر من گھڑت اور بے بنیاد خبریں پھیلا کر کوئی ادارہ اگر اپنی کامیابی ثابت کرنا چاہتا ہے تو عارضی طور پر اس کی کارکردگی کی تعریفیں تو ہو جائیں گی تاہم پاکستان کو اس سے نقصان پہنچے گا۔ دہشت گردی کا یہ مسئلہ صرف کسی جماعت فرد یا ادارے کا نہیں بلکہ پوری قوم اس سے نبرد آزما ہے اور ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس حوالے سے پرعزم ہیں کہ دہشت گردی کے عفریت کو شکست دے کر دم لیں گے۔

Asif Khurshid

Asif Khurshid

تحریر: آصف خورشید رانا
asifkhurshid.ndu@gmail.com