بہادر سپہ سالار

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم
پاکستان کی تاریخ میں غیر معمولی، جوان مرد، دلیر اور مقبول آرمی چیف راحیل شریف 16 جون 1956ء کو کوئٹہ کے ایک ممتاز فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام میجر محمد شریف ہے ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971 کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملا وہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیںـ ان کے دوسرے بھائی، ممتاز شریف، فوج میں کیپٹن تھے وہ میجر راجہ عزیز بھٹی، جنہوں نے 1965 ء کی بھارت پاکستان جنگ میں شہید ہو کر نشان حیدر وصول کیا ،کے بھانجے ہیںان کا خاندان اپنی مذہبی ،مشرقی اور حب الوطنی کی بنا پہ ایک خاص پہچان کا حامل ہے راحیل شریف شادی شدہ ہیںان کی شادی 1982 میں ہوئی اور ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں1976 ء میں گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ، کی 6th بٹالین میں کمیشن حاصل کیاانہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دیتے ہوئے27 نومبر 2013 کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی فوج کا سپہ سالار مقرر کیاان سے قبل وزیر اعظم 6 مختلف آرمی چیف کے ساتھ کام کر چکے ہیں 20 دسمبر 2013 کو راحیل شریف کو نشان امتیاز(ملٹری) سے نوازا گیاقومی اور بین الاقوامی سطح پر قوم کا مورال بلند کیا ہے۔ وہ ایک محب وطن اور قابل جرنیل ہیں اسی لئے انہوں نے ملکی حالات کو خوش کن جہتوں سے روشناس کروایا۔

وطن عزیزپاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے 1957 وزیراعظم فیروز خان کے دورے حکومت میں جنرل ایوب خان تھے جنہیں بطور آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع دی گئی اور اب حاضر سروس آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کی خبر نے پاکستان کی سیاست بالخصوص عوام میں ایک ہل چل مچادی نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ غیر ملکی میڈیا پہ بھی اس خبر کو نمایاں جگہ دی گئی ایکسٹینشن نہ لینے کی خبر نے سوشل میڈیا سمیت سیاستدانوں اور عوام میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہزاروں کی تعداد میں کمنٹس آئے سوشل میڈیا پہ گلے شکوے بھی دکھائی دیئے ان سے کہا گیا ہمیں بے یارو مدد گار نہ چھوڑیں ابھی پاکستانی عوام کو آپ کی اشد ضرورت ہے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ ملک کو بہتری کے راستے پر لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔سیاست دان خوشی کے شادمانے بجا رہے ہیں جبکہ عوام میں اس اعلان سے تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے کیونکہ عوام سمجھتے ہیں جب سے انہوں نے پاک فوج کی قیادت سنبھالی ہے تب ملک عزیز میں امن و امان کی صورتحال خراب اور دہشت گردی کے گھنے سائے منڈلارہے تھے۔

ان کے ہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اور دلیررانہ اقدامات سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں کیجس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔جنرل راحیل شریف نے حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان’ وزیرستان اور کراچی میں امن و امان کے قیام کیلئے قابل قدر کام کیا ہے۔ان کی قیادت میں فرقہ ورانہ دہشتگردوںقبضہ مافیا’ ٹارگٹ کلنگ ‘بھتہ خوری’ چائنا کٹنگ’ ‘ علیحدگی پسندوں اور سب کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کیاس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری ہونے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حثیت سے ابھرکے سامنے آئے۔ہر مشکل کی گھڑی میں وہ عوام کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے حالیہ ایران سعودیہ کشیدگی میں وہ بھی ملکی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں نمایاں نظر آئے کچھ ہی عرصہ میںعوام کے دلوں میں آرمی چیف گھر کر چکے ہیں کیونکہ نہ صرف ملکی سطح بلکہ عالمی سطح پہ انہوں نے ملک کا وقار بلند کیا دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ان کی گراں قدر خدمات ہیںان کی خدمات کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

Asim Bajwa

Asim Bajwa

آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوٹر پو اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایک عظیم ادارہ ہے مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا،مقررہ وقت پرریٹائر ہو جائوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کا سلسلہ بھر پور عزم کے ساتھ جاری رہے گا۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قومی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ کیاجائیگا۔واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قیاس آرائیاں کافی عرصے سے خبروں میں گردش کر رہی تھیں۔اس خبر کے ساتھ ہی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں حزب اختلاف میں بیٹھے سیاست دانوں نے آرمی چیف کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا حالانکہ کے انہوں نے اپنے دور حکومت میں سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی ” کیا یہ کھلا تضاد نہیں ”جبکہ پیر کے روز ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔

محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک کو کئی خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی آپریشن کیا جارہا ہے، جب سے جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی کمان سنبھالی ہے ملک میں جاری دہشت گردی میں کمی اورامن وامان میں بہتری آئی ہے،جس کے پیش نظر پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف کے مدت ملازمت میں توسیع کی جائے۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمی سے درخواست ہے کہ ان کی درخواست سپریم کورٹ کا لارجر بنچ کرے ۔ جنرل راحیل شریف رواں برس ریٹائر ہورہے ہیں تاہم آئین کے تحت صدر مملکت وزیر اعظم کی سفارش پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں۔وقت سے بہت پہلے آرمی چیف کے بیان نے ایک خوبصورت اور نئی روایت قائم کی ہے ان کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ضرب عضب نے ان کی قیادت میں دہشت گرد عناصر کے مذموم مقاصد اور ناپاک ارادوں کو پسپا کیا اندرون ملک سماج دشمن عناصر کے خاتمے میں آرمی چیف کا کردار قابل تعریف ہے ہمسایہ ملک بھارت کی جارحانہ پالیسی اور ہٹ دھرمی کا آرمی چیف کا منہ توڑ جواب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

ان کے دلیرانہ فیصلوں سے سبھی معترف ہیں راحیل شریف ایک آرمی چیف کی حثیت سے نومبر 2016 تک خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ بہادر سپہ سالار کے وقت سیدس ماہ قبل ہی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کیاعلان نے سیاست دانوں کے منہ پہ بھی ایک کھلا طمانچہ دے مارا ہے جو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کیا کیا نہیں کرتے ایسے سیاست دان جو اقتدار میں رہنے اور آنے کے لئے جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں اپنے اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتے ہیں انہیں آرمی چیف کے اس لازوال اقدام سے سبق سیکھنا چاہئے۔ایک منظم سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت سیاست دانوں نے آرمی چیف کے متعلق قیاس آرائیوں کو جنم دے رکھا تھا کیونکہ سیاست دان نہیں چاہتے تھے کہ آرمی چیف منظر پہ رہیں ان سب سیاست دانوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی تھی یہی وجہ ہے ان کے اعلان سے سیاست دان خوشی سے جھوم اٹھے ہیں ”بہادر سپہ سالار” کے جرات مندانہ اعلان نے گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور اب آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ کون کہاںرہے گا اور کون جائے گا۔

Dr.B.A.Khurram

Dr.B.A.Khurram

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم