موبائل نعمت بھی اور

Post Office Letter

Post Office Letter

تحریر: سجاد گل
کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب آپ اپنے کسی دوست و احباب سے دوسرے شہر یا علاقے میں رابطہ کرتے تھے، جی ہاں میں اسی دور کی بات کر رہا ہوں جب ہم ڈاکخانے کی لائن میں کھڑے ہو کر ہلکے نیلے رنگ کے لفافے خرید کر کسی مڈل فیل یا پانچویں پاس پڑھے لکھے نوجوان سے خط لکھوا کر ڈاکخانے کے باہر لگے لوہے کے ڈبے میں (جسے لیٹر بکس کہا جاتا تھا)ڈال دیتے، اگلے ١٢ ۔١٥ دنوں میں وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتا، اسی طرح ہمیں بھی کوئی چٹھی (خط) ڈاکیہ جسے منشی بھی کہا جاتا تھا آکر دیتا تو خوشی سے جھوم جاتے۔

منشی بھی ہماری خوشی میں اس طرح شریک ہوتا ”لائو مٹھائی کے پیسے ” ہم با خوشی ٥ یا ١٠ کا نوٹ اسے تھما دیتے، ایمرجنسی رابطے کا ذریعہ ”تار” ہوا کرتا تھا،ہماری دادی اماں فوت ہوئیں چاچوکو بذریعہ تار اطلاع دی تو وہ ایک ہفتے بعد گائوں پہنچے، کیوں کہ تار بھی بہت ساری منازل سے گزرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچتا تھا،تار FAX کی ایک قسم تھی،مگر موجودہ FAX کی طرح وہ عام آدمی کی پہنچ میں نہیں تھا،بلکہ صرف شہر کے GPO میں ہوتا تھا، اگر ہمیں کوئی فوری خبر دینی ہوتی تو ہم پہلے گائوں سے شہرGPO میں آتے،وہاں اپنا پیغام ٹائپ کرواتے وہ ٹائپ شدہ پیغام جہاں بھیجنا ہوتا اس علاقے کے مرکزی GPO میں موصول ہوتا پھر وہاں اسکا پرنٹ نکال کر اسے تحریر شدہ پتے پر بھیجا جاتا،یوں اس عمل میں ٢٤ گھنٹے سے زیادہ وقت لگ جاتا۔

پسماندہ علاقوں میں تار پہنچتے پہنچتے ٣۔٤ دن لگ جاتے تھے،رہی بات ٹیلی فون کی تو وہ رابطہ قیمتاََ بہت مہنگا پڑتا تھا دوم فون موجودہ وقت کی طرح ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا ،شہر جا کرپی ۔سی۔ او،(Public Call Office ) سے ماموں کی نوکری والی جگہ فون کیا جاتا ،آگے سے جواب ملتا ”صادق صاحب ابھی آن ڈیوٹی نہیں ہیں،آج انکی نائٹ ہے ،بس اتنی سی بات کے ١٥٠۔٢٠٠ روپے لگ جاتے ،جب پچاس پیسے کی ایک روٹی ہوتی تھی،اگر آن ڈیوٹی ہوتے بھی تو کونسا ٹیلی فون کے پاس بیٹھے ہوتے، اس صورت میں جواب ملتا ١٠ منٹ بعد دوبار فون کریں ہم انہیں بلا نے جا رہے ہیں۔

Public Call Office

Public Call Office

پہلے تو ہم ١٠ کے بجائے ٢٠ منٹ بعد کال کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابھی ماموں آئے ہی نہ ہوں اور خواہ مخواہ ڈیڈھ دو سو کی چٹی پڑھ جائے،جب بات ہوتی تو دماغ پیسوں کی طرف اور نظریں گھڑی پر جمی ہوتیں،ایسے میں دو تین منٹ کی بات ایسے کی جاتی جیسے پیچھے نور عالم بابا کا کتا لگا ہوا ہو،۔۔۔لیکن۔۔۔آج کسی چھ گھروں کے چھوٹے سے پنڈ میں بُڑ کے نیچے بیٹھا عالم دین بابا امریکہ میں اپنے بیٹے کو صرف چھوء نہیں سکتا باقی تسلی سے دیکھ بھی سکتا ہے اور سکون سے بات بھی کر سکتا ہے اور دکھ بھرے ماہے اور ٹپے بھی سنا سکتا ہے،اور وہ بھی ١٠ روپے بشمول ٹیکس میں پورے سات دن جب روٹی آٹھ آنے کی نہیں بلکہ آٹھ روپے کی ہے، موبائل فون انسانی دماغ کا بہترین اور دلچسپ شاہکار ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ جرابیں تو ٣٠ روپے سے کم نہیں ملتیں لیکن امریکہ ، کنیڈا،انگلستان ،جرمنی ،فرانس اور عرب ممالک وغیرہ میں بات فری کے برابر کر سکتے ہیں،میری نظر میں موبائل اور اسکے ساتھ ساتھLine,Imo,Twitter, Facebook,Viber,Whatsapp, وغیرہ مصنوعی نعمتیں ہیں، ان کا صیح اور درست استعمال نہ صرف مفید ہے بلکہ سہولیات سے بھی مزین ہے۔

اب توفوتگی کی خبر یوں دی جاتی ہے کہ چاچو چاچو دادی اماں کی سانسیں تیز تیز چل رہی ہیں بس آپ تیاری میں رہیں،اور تو اور شوہر فون پر ہی بیوی سے گھر کا مینو پوچھ لیتا ہے،تا کہ گھر میں بینگن بنے ہوں تو باہر سے چھولے چاول پر ہی گزارہ کر کے گھر میں داخل ہو،مگر اسی موبائل کا غلط استعمال معاشرے میں بہت ساری برائیوں کو جنم دے رہا ہے،یہ چیز آپ کے مشاہدہ میں بھی آئی ہو گی کہ آپ کسی سے بات کر رہے ہیں مگر وہ مسکرا مسکرا کر Facebookپر کومنٹز کر رہا ہوتا ہے اور آپ کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے ،،جی جی، ہوں ہوں،،کیا کہا آپ نے کرتا رہتا ہے یہ بات آپ کو ماننی پڑھے گی کہ موبائل اور اس سے جڑے دوسرے لوازمات نے ہمارے دور کے رشتہ داروں ،گم شدہ دوستوں اور کلاس فیلوز کے نزدیک ضرور کیا ہے مگر پاس بیٹھے ماں باپ بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو دور کر دیا ہے۔

Mobile Phone

Mobile Phone

لڑکی نے املیٹ اور پراٹھے کی فوٹو اپ لوڈ کر کے ساتھ لکھا”hi friends garm garm nashta kr lain ” لڑکے نے جواب دیا ”thnx dear nashte ka maza ah gea ” پاس بیٹھی اسکی بیوی نے ٦ گھنٹے تک اس سے بات کوئی بات نہ کی اسکے بعد پہلی بات یہ کی کہ لنچ کرنا ہے یا وہ بھی بریک فاسٹ کی طرح facebookپر ہی کریں گے،کسی نے ٹھیک کہا ہے ١٩٨٠ ء میں آنے والا مہمان سوال کرتا تھا بھائی جان قبلہ کس طرف ہے اور جاء نماز دے دیں، اور آج کا مہمان سوال کرتا ہے،آپ کے پاس موبائل کون سا ہے ،پتلی پن والا چارجر مل جائے گا؟لڑکیوں کو تو یہ مرض تھا ہی کہ سہلیوں سے ملتے ہی۔۔واہو۔۔کتنے پیاری ہیل پہنی ہوئی، ہے کتنے کی لی ہے؟کہاں سے لی ہے ؟ اگر اس میں اگر گولڈن کے بجائے سلور کلر لے لیتی تو تمہارے ساتھ زیادہ سوٹ کرتا،ماشا اللہ اب یہ بیماری لڑکوں میں بھی پیدا ہو گئی ہے،واہ رہے جگر ۔۔دیکھا کیڑا موبائل ہی ،؟کنے دا لیا ہی؟چینا دا تے نی؟بیچڑاں تے نی ؟مجھے توایسا لگتا ہے جیسے ہماری زندگی کا آدھا حصہ موبائل کی نذر ہو گیا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں موبائل کا درست استعمال نہ ہونے کے برابر اور غلط استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے،جب موبائل اور 3G,4G,LTE وغیرہ اتنے عام نہیں تھے تو بے ہودا مواددیکھنے کے شوقین افراد کو نیٹ کیفے جانا پڑتا تھا مگر آج ہر ہاتھ میں انٹر نیٹ کیفے موجود ہے،١٠ سے زیادہ ممالک کی تحقیق ہے کہ موبائل کا زیادہ استعمال دماغ میں رسولیاں پیدا کر دیتا ہے،جو دماغ کے کینسر کا باعث بنتی ہیں،اسی طرح موبائل پر ٹک ٹکی لگا کر گیم کھیلنے سے یا کسی اور مقصد کے لئے نظریں جمانے سے نظر کمزور ہوتی ہے۔

اگر موبائل کا صیح استعمال کیا جائے توہم اپنے مقصد کی ہر معلومات سے مستفید ہو سکتے ہیں،طالب علم اپنے مقصد کا مواد حاسل کر سکتا ہے ،ڈاکٹر اپنے مقصد کا،انجینئر اپنے مقصد کا،فلاسفر اپنی مرضی کا،خواہ آپ کو کسی بھی قسم کی معلومات چاہئے ہوں باآسانی حاصل کر سکتے ہیں،کوئی جگہ نہ دیکھی ہو تو اسکی تصاویر دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں، موسم کا حال معلوم کر سکتے ہیں،مختلف ممالک کی کرنسی کی جان کاری لے سکتے ہیں،سکول کالج کے نتائج جان سکتے ہیں،اور دینی معلومات کا ایک وسیع مواد بھی حاصل کر سکتے ہیں،ہمیں چاہئے کہ اس بہترین نعمت کا اعلیٰ استعمال کر کے اس سے بھر پور فائدہ حاصل کریں۔

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر: سجاد گل(دردِ جہاں)
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi