پاکستان کونسل آف میڈیا وومن کے زیراہتمام تھرپارکر کا تین روزہ دورہ

Tharparkar

Tharparkar

تھرپارکر (ثناء زاہد) پاکستان کو نسل آف میڈیاوومن نے میڈیا خواتین کے لیئے تین روزہ خصوصی تھرپارکر فیلڈ ٹرپ منعقد کروایا۔اس دورے کا مقصد خواتین صحافیوں کو تھرپارکر کے موجودہ حالات سے آگاہی دینا تھا۔یہ دورہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد دورہ اس لیئے ثابت ہوا کہ اس میں میڈیاکے اداروں ایکسپریس نیوز،بزنس پلس،جاگ ٹی وی،ایکسپریس ٹریبیون،آج نیوز،ڈان ڈاٹ کام،چینل 24،روائیٹرز،اب تک،بی بی سی ٹی وی،صبح بہارمیگزین،بول ٹی وی،ریڈیو پاکستان،رائل نیوز،ایف ایم 93،ایف ایم 105 اور دیگر ذرائع ابلاغ سے منسلک 26 خواتین اور کیمرہ مین حضرات نے شرکت کی۔

تھرپارکر کے زونل ایڈمنسٹریٹر میجر سعد نے شرکاء کو تھرپاکر میں موجود صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کے لیئے نصب کردہ چار شمسی توانائی سے چلنے والے پاک اوئیسس کے ریورس اوسموس پلانٹس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کمپنی تھر میں بہترین آلات اور اسٹاف کا استعمال کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو پانی کی وافر مقدار فراہم کر رہی ہے ۔اس موقع پر صحافیوں کوایشیاء کے سب سے بڑے شمسی توانائی سے چلنے والے تھرپارکر میں نصب ریورس اوسموس پلانٹ مٹھی کا دورہ بھی کروایاگیا جو کہ 3500 سولر پینلز پر 20 اسکڈ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں 10000 پلانٹس موجود ہیں۔سندھ کول اتھارٹی آراو پلانٹ تھرپارکر روزانہ 2ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ تھرپارکر میں 2500 رجسٹرڈشدہ گاؤں موجود ہیں اور پاک اوئیسس نے اب تک 850 گاؤں کو پانی کی رسائی دی ہے۔

سجانی بھیل پلانٹ 15000 گیلن پانی 5 گاؤں اور گودھیار میں موجود پلانٹ 75000 گیلن روزانہ 6 گاؤں کو پانی فراہم کررہا ہے ۔ ان پلانٹس کی تکمیل سے پہلے مقامی لوگ دوردراز کے علاقوں سے کنویں کا پانی اپنے اونٹوں اور خچروں پر لاد کر لاتے تھے ،اب ان پلانٹس کی بدولت مفت اور شفاف پانی کی رسائی تھر کی بڑی آبادی کو میسر ہوا ہے ۔ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں صاف پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک بچھانے کی اشد ضرورت ہے ۔اس بارے میں نمائندہ آر او پلانٹ نے بتایا کے اس سسٹم کو وسیع کرنے ٹی ام اے کی بھرپور مدد کی جارہی ہے ۔آر او پلانٹس کے بارے میں یہ بات مشھور تھی کہ ان کے سسٹم عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں مگر ٹیم کے دورے کے دوران مقامی باشندوںسے گفتگو سے یہ بات واضع ہوگء کہ یہ پلانٹس شمسی توانائی کی بدولت باآسانی چلتے ہیں اور صرف تکنیکی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لیئے مختصر مدت کے لیئے بند کیئے جاتے ہیں۔جن علاقوں میں آراو پلانٹس نصب کیے گئے ہیں۔

وہاں صاف پانی کے سبب بیماریوں میں کمی دیکھنے میں نظر آئی۔ پاکستان کو نسل آف میڈیا وومن نے صحافیوں کوبھٹ ،مٹھی،اسلامکوٹ کے دیہی علاقوں کا دورہ بھی کروایا جہاں انھیں مقامی لوگوں سے کم عمری اور بیماریوں کے سبب ہونے والی اموات،تعلیمی،صحت کے اداروں اور دیگر سہولیات کے بارے میں حقائق جاننے کا موقع ملا۔ صحافیوں نے اسلامکوٹ کے سرکاری ہسپتال کا دورہ بھی کیا جہاں میڈیکل اسٹاف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں غذائی قلت کے سبب ایک بچے کی موت دسمبر 2015 میں ہوئی،اس کے بعد سے وہاں موجود ہینڈز کی ٹیم بچوں کی غذائیت کے پلان پر کام کررہی ہے۔

ڈاکڑز کا کہنا تھا کہ کم عمری میں کی جانے والی شادیاں ماؤں کی کمزور صحت اور فیملی پلانگ کافقدان تھر میں بچوں کی اموات بڑی وجوہات ہیں۔پا کستا ن کو نسل آف میڈیا وومن نے سنت نیٹورام آشرم کا بھی دورہ کیااور لوگوں سے آشرم کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ٹیم نے نگرپاکرجو کہ بھارتی سرحد سے تقریبا 132 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،میںموجود تاریخی مسجد بھودیسراور قدیم جین مندر کا بھی دورہ کیا۔خواتین صحافیوں نے تھرپارکر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی عام فضاء دیکھی۔

اس مو قع پر پا کستا ن کو نسل آف میڈیا وومن کی صدر حمیرہ موٹالا نے اپنے خیالا ت کااظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کونسل آف میڈیا وومن کا یہ خواتین کے لیئے چوتھا خصوصی ٹرپ تھا۔ان کا کہنا تھا ان کا اپنا تجربہ ہے کہ اکثر ایسے ٹرپ خواتین کے لیئے ان کے رویے کی وجوہات کے سبب نہیں کروائے جاتے جو کہ عموما مردوں میں نہیں پایا جاتا ۔ پاکستان کونسل آف میڈیا وومن کے پلیٹ فارم سے میڈیا سے منسلک خواتین کو اس ٹرپ کاموقع دینے مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کر حقیقی لیول پر جاکر تھرکے موجودہ حالات کے بارے میں معلومات جانیں اور ان کے بارے میں تفیصیلی کوریج کریں تاکہ اپنے آپ کو بہتر طور پر میڈیا میں منواسکیں کیونکہ عموما خواتین کو اتنے دوردراز کے علاقوں میں جاکر ریسرچ کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔

تمام شر کاء نے حمیرہ موٹالا اور پاکستان کونسل آف میڈیا وومن ممبرز کی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے لیئے کی جانے والی کاوشوں کو سراہتے ہوئے پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان میں خواتین کے لیئے اس طرح کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں جن میں خواتین کوخصوصی فیلڈ ٹرینگ حاصل کرنے کا موقع ملے۔