تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی سورج کا طلوع ہونا ایک سچ ہے اور شامیانہ تان کر اس کو چھپانا ہر گز بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ شامیانے کے اندر ہوتے ہیں وہ اکثر وہم کا ہی شکار ہوتے ہیں اور اندر کی چکا چوندھ سے متاثر ہو کر باہر کی پرنور فضا کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ سورج کو چھپانے کی کوششوں میں وہ خود ہی چھپ گئے ہیں۔ ٹھیک شتر مرغ کی طرح، جو ریت میں اپنا ہی سر چھپاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے شکاری کو دھوکہ دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سچ کو اوجھل رکھنے کے لئے دوسرا طریقہ بھی اپنایا جاتا ہے۔
افواہیں اس حد تک پھیلائی جاتی ہیں کہ عوام اسی کو حق تسلیم کر لیتے ہیں اور سچ کو بھی سچ ماننے پر ان کا دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ سچ کو نہاں رکھنے کی سازشی کوششوں کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دینے کی سعی نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ملکی اور علاقائی سطح پر بھی کی جاتی رہی ہے اور آج بھی اس کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بات صرف سچ کو چھپانے کی کوششوں کی نہیں ہے بلکہ غلط کو سچ کی شکل دینے کی سازشوں کی بھی ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی قیمتیں کم کی جارہی ہیں مگر شہرِ قائد کے بسنے والوں کے لئے بجلی مہنگی ہوتی جا رہی ہے، ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات ہے پورے ملک میں بجلی کی فی یونٹ ریٹ ڈھائی روپئے کم ہوئے مگر شہرِ قائد میں سنتاون پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔
یہ کیسی نا انصافی ہے کیا کراچی پورے ملک سے الگ ہے، یا یہاں کے مکین پورے ملکوں کے مکینوں سے مختلف؟ ایک رپورٹ کل ہی نظروں سے گزرا جسے پڑھ کر حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ 2012ء کے اوائل میں عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت 109 ڈالر فی بیرل تھا اور اُس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت 8روپئے تھی، مگر آج پیٹرول کی فی بیرل قیمت 26ڈالر ہے مگر بجلی کی فی یونٹ قیمت 16سے 18روپئے ہے۔
Load Shedding
یہ اس ملک کے غریب عوام کے ساتھ نا انصافی نہیں تو پھر کیا ہے؟ اربابِ اختیار اس طرف کب توجہ دیں گے۔ جس گھر کا کمانے والا ایک ہو اور اس کی تنخواہ بیس ہزار روپئے ہو تو وہ گھر کا خرچ کس طرح چلا پائے گا کہ جب اس کے بجلی کا بل پانچ سے چھ ہزار روپئے ماہانہ آ رہا ہو؟یخ بستہ سردیوں میں بھی دن میں تین بار ڈھائی ڈھائی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی یہ غریب عوام بھگتیں اور بجلی کا بل اتنا زیادہ کہ لوگ بجلی سپلائی کرنے والوں کو کوستے ہی نظر آتے ہیں۔ہر دورِ حکومت میں عوام اپنے اچھے دنوں کی آس لگائے ووٹ ڈالتے ہیں اور ہر بار غریب عوام کی کمر توڑ کر اُسے مردہ لاشہ بنا دیا جاتا ہے۔ میں تو یہاں پر صرف یہ شعر ہی تحریر کرنا چاہوں گا۔
بنایئے گا سرِ راہ گزر میرا مزار میری سرشت میں ہے انتظارِ موسمِ گل
دنیا کے ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ ایک ناخوش، دکھی انسان کبھی کسی دوسرے ناخوش، دکھی انسان کو کوئی خوشی اور سکھ نہیں دے سکتا البتہ اس کے برعکس وہ ظلم و ستم، دکھ اور پریشانی کے اس دھواں کو کالی گھٹا بتا کر ایک لمبے زمانے تک دھوکے اور فریب میں رکھ سکتا ہے جو نشیمن کے جل جانے کے بعد کسی غریب بستی سے اچانک اور پھر رہ رہ کر اٹھتا رہتا ہے۔
اس فلسفۂ زندگی پر ہمارا یقین اور گہرا ہو گیا ہے کہ یہاں تو سوائے نا انصافی کے اور کچھ بھی عوام کو میسر نہیں۔مہنگائی کی مار، اداروں میں نا انصافی، اداروں میں ملازمت پیشہ لوگوں کی ترقیاں خلافِ ضابطہ، غرض کے کس کس نا انصافی کا اس مختصر سے کالم میں ذکر کیا جائے ، بس اتنا کہ یہاں ”جس کی لاٹھی ، اُسی کی بھینس” کے مصداق عمل جاری و ساری ہے۔
Inflation
ہمیں احساس ہے کہ ہم قحطِ رجال کے سفاک عہد میں جی رہے ہیں۔ آج جو اُٹھتا ہے اپنی جگہ خالی چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی جانے والے کی جگہ پُر کرتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ مگر کوئی جانے والا یہ سوچ کر اچھے کام نہیں کرتا کہ کل جب ہم اس عہدہ پر نہ ہوں تو ہمیں اچھے الفاظ میں لوگ یاد رکھیں۔
آپ روزآنہ ٹاک شوز میں دیکھتے ہی ہونگے کہ پروگرام چاہے کوئی بھی اور ایشوز چاہے کیسا بھی ہو ، خرابی دور کرنے کا نہیں سوچا جاتا بلکہ ایک ہی جملے میں ہر ایشوز کا کام تمام کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب بہت پہلے سے چل رہا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ ضیا ء دور سے یہ خرابی ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ مشرف دور سے یہ خرابی ہے۔ مانا کہ یہ خرابیاں ہیں مگر اس کو سدھارے گا کون؟ مطلب صاف ہے کہ خرابی دور کرنے کے بارے میں اور مہنگائی کی مار کم کرنے پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس ایک جملے پر اپنے اس مختصر نوٹ کو تمام کرتے ہیں کہ اس کاروبار ِ ادب سے فائدہ ، جس کے مال کا نہ کوئی خریدار ہے، نہ سینے سے لگانے والا، نہ پڑھنے والا؟ لیکن ریشم کا کیڑا پھر بھی ریشم بناتا رہے گا۔اس شعر کے ساتھ اختتام کہ آپ کو سمجھ آ جائے تو واہ واہ! ورنہ سب کچھ بے سود! آئینہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا آپ چہرے بدلتے ہیں تو بدلتے رہیئے