تحریر: جویریہ ثنا لہلاتی سبزہ زار وادیاں دلنشیں نظارے پر فضا بہاریں جسے قائد نے شہ رگ کا لقب دیا تھا وادی کشمیر تاحال پاکستان اور بھارت کے مابین تنازع کا شکار ہے۔ یہ تنازع قیام پاکستان کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ 5 فروری کو کشمیر ڈے کے منایا جاتا ہے جس کا مقصد کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کے لیے کچھ تاریخی اوراق کو الٹ پلٹ کرنا پڑے گا۔ آزاد پاکستان کے وقت کشمیر کی تقریبا 80 فیصد آبادی مسلمان تھی جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی خواہش اس بات پر مبنی تھی کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملایا جائے لیکن ریاست کشمیر کے راجا ڈوگری ہری سنگھ نے انتہائی عیاری سے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا اور بھارت نے فوج کشمیر بھیج کرکے اپنا تسلط قائم کر لیا ۔
بھارتی غاصبانہ تسلط کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے علم جہاد بلند کیا اور وادی کی قریبا ًایک تہائی حصہ کو آزاد کرا لیا۔ جب بھارتی فوجیں کشمیری مجاہدین سے علاقہ چھیننے میں ناکام رہیں تو مزید ناکامی سے بچنے کے لیے بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جائے ۔ جب یہ مسئلہ وہاں پیش کیا گیا تو بھارت کا بیان یہ تھا کہ کشمیر کا باقاعدہ الحاق بھارت کے ساتھ ہو چکا ہے اور یہ بھارت کا علاقہ ہے۔ بھارت نے یہ بھی دوھائی دی کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کیا جس کا مطلب بھارت پہ حملہ ہے پاکستان نے بھارت کا کشمیر کے ساتھ قانونی الحاق کو چیلنج کیا اور سلامتی کونسل کو آگاہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اس کے ہندو راجا کو نہیں بلکہ عوام کو ملنا چاہیے۔
United Nations
یکم جنوری 1949ءکو جنگ بندی عمل میں آئی اور پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا گیا کہ فیصلہ کشمیری عوام کی رائے پر ہوگا ۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرایا جائے ۔ سلامتی کونسل کی اس تجویز کو پاکستان اور بھارت نے منظور کرلیا جس کی بنا پر جنگ بندی ہوگی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنے مبصر مقرر کر دیے ان ابتدائی مسائل کے طے ہو جانے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ اپنے زیر نگرانی کشمیر میں استصواب رائے کا بندوبست کرے گی ۔ اس کے لیے اقوام متحدہ نے کوششیں بھی کی لیکن بھارت کا متعصبانہ رویہ تھا جو ازل سے چلا آ رہا تھا بھارت کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے۔ چونکہ بھارت کو علم تھا کہ کشمیری پہلے سے ہی پاکستان کی حق میں ہیں، اپنی دوغلی پالیسی کی بنا پر بھارت نے کثیر تعداد میں فوجیں تعینات کر دیں اور استصواب رائے سے صاف انکار کر دیا جس کی بنا پر مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ۔
ماضی کی طرح آج بھی بھارتیوں ظلم و زیادتی کی ایک سے بڑھ کر ایک داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ آج بھی وہاں خون پانی کی طرح بہتا ہے ، ہزاروں مائیں اپنے لخت جگر ، بہنیں اپنے آنچل اور بیویاں اپنے سہاگ کی قربانیاںدے رہی ہیں۔ ناجانے کتنے لاکھ کشمیری اس مسئلے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہاں یہیں وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور کہ کل تک جسے سب جنت نظیر کہتے تھے ۔ آج ہزاروں ماﺅں ،بہنوں اور بیٹیوں کی نظر محمد بن قاسم جیسے سپہ سالار ، قائداعظم جیسے عظیم لیڈر کو ڈھونتی ہیں جو ان کہ اس الفاظ کو امر کردے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔
یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں ،چھن چھن دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں جن کی بھرپور جوانی کا کندن یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے اے ارض عجم اے ارض عجم کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیے اے پوچھنے والے پردیسی یہ طفل و جواں اس نور کے نورس موتی ہیں یہ صبح بغاوت کا گلشن اور صبح ہوئیں من من تن تن جو دیکھنا چاہے پردیسی پاس آیے جی بھر کے دیکھے یہ زیست کی رانی کا جھومر یہ امن کی دیوی کا کنگن
LoC
بھارتی سرکار نے کشمیر میں حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے 8 لاکھ سے زائد فوج لگا رکھی ہے جبکہ حالیہ دنوں میں پٹھان کوٹ حملوں کے بعد بھارت نے سرحد پر جدید اسلحہ سے لیس بھاری تعداد میں فوج تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے ہی بھارتی فوج نے کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر ظلم و جبر کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ گھر سے کسی ایک شخص کے غائب ہونے کے بعد گھر والوں کو اس کی اطلاع میڈیا کے ذریعے ہی ملتی ہے کہ فلاں جرم میں ان کے سپوت کو خاک و خون میں تڑپا دیا گیا ہے۔ آئے روز ہڑتالوں سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ مگر یہاں پر ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ہر طرح کا طریقہ اپنا یا ، ہر اذیت سے دوچار کیا لیکن اس کے باوجود وہ کشمیر کے عوام سے آزادی کی جدوجہد کو نہ دبا سکے۔ ان کے عزائم ہر ظلم کے بعد بڑھتے گئے۔ ایک بات تو بھارت کو جان لینی چاہیے کہ یاران جہان نے کہا تھا ”کشمیر جنت ہے جو نہ کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔
شاید اب وقت ہم سے کسی بڑے فیصلے کا تقاضا کر رہا ہے۔ خالی کھولے نعروں کی بجائے ہمیں یکجا ہونا ہوگا۔ ایک بار پھر 23مارچ کو دھرنا ہوگا ، پھر سے 14 اگست کی صبح روشن کو طلوع کرنا ہوگا۔ جب کشمیر کی سرزمین آزادی اور لا الہ الا اللہ کے نعروں سے گونج اٹھے گی۔