تحریر : سردار منیر اختر میڈیکل ایک بہت ہی اہم اور معزز پیشہ ہے جسکی اہمیت ہمارئے لیے بلکل ایسی ہی ہے جیسے پورئے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت ہے،میٹرک کرنے کے بعد روزگار کی تلاش مجھے ایک کلینکل لیباٹری تک لے آئی جہاں مجھے پہلے کام سیکھنا تھا اور اس کے بعد ہی مجھے تنخواہ ملنی تھی،یہ لیباٹری ملک کے مشہور و معروف ہسپتال کے بلکل ساتھ ہی جڑی تھی جہاں پر دن میں کم از کم دو سے تین سو مریض جن کے ٹیسٹ ڈاکٹر صاحبان لکھتے تھے اس لیباٹری میں کیے جاتے تھے،میں نے میٹرک آرٹس میں کی تھی لیکن لیب کے مالک نے مجھے کہا کہ جب بھی کوئی چیکنگ والا آئے تو تم نے یہ بتانا ہے کہ میں نے میٹرک سائنس میں کی ہوئی ہے اور آگے اسلام آباد میں واقع ملک کے مشہور میڈیکل کالج کا نام بتایا کہ وہاں سے میں نے لیبارٹری ٹیکنشن کا کورس بھی کیا ہوا ہے۔
چند دن ہی لیب میں رہتے ہوئے میں نے مکمل کام سیکھ لیااور جو بھی ٹیسٹ ڈاکٹر لکھتا میں کر کے رپوٹ بنا دیتا۔کچھ دن گزرنے کے بعد میں نے دیکھا کے جو جو ٹیسٹ ڈاکٹرز لکھ رہے تھے ان میں سے تقریبا اٹھانوئے فیصدبیماری کے ٹیسٹ نیگٹیوآ رہے تھے یعنی کہ جس بھی بیماری کا ٹیسٹ لکھا آ رہا تھا جب خون ٹیسٹ ہوتا تو مریض میں وہ بیماری موجود نہ ہوتی۔یہ میرئے لیے حیرت کی بات تھی کہ ڈاکٹرز ان مریضوں کو جو ٹیسٹ کروانے کے لیے کہتے ہیں وہ ان میں وہ بیماری ہوتی ہی نہیں ہے۔
اس حیرت کو ختم ہونے میں صرف ایک ماہ لگا اور حقیقت اس وقت سامنے آئی جب لیب کے مالک نے تین چار لفافوں میں پیسے ڈالے اور جا کر ان ڈاکٹرز کو دئیے جو مریضوں کو ریفر کرتے تھے کہ فلاں لیب میں جا کر ٹیسٹ کروا کہ لایں،مریضوں میں جو مرض نہیں بھی پایا جاتا تھا اس کے بھی ٹیسٹ لکھ کر لیب میں ٹیسٹ کے لیے ریفر کیا جاتا تھاجو ڈاکٹر جتنے زیادہ مریض ریفر کرتا اس کا اتنا ہی زیادہ کمیشن بنتا تھا۔پانچ سو سے چھ سو روپے کے ان ٹیسٹوں کا خواہ مخواہ بوجھ مریضوں پر تھا اور وہ جب دیکتھے کے ڈاکڑ کے لکھے گئے ٹیسٹ والی بیماری ان کو نہیں ہے تو سُکھ کا سانس لیتے تھے۔
Pakistan Poverty
یہ تو حال تھا اس ایک لیب کا جو میں نے دیکھا لیکن وطن عزیز میں نہ جانے کتنی ہی ایسی لیب ہوں گی جہاں پر ایسا نظام چل رہا ہو گا،وطن عزیز میں غریب انسان وہ واحد مخلوق ہے جو آسانی کے ساتھ بیوقوف بن جاتا ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر محترک نوسرباز ہوں یا موبائل کمپنیوںکے نام پر انعام کا لالچ دینے واے فراڈیے،اللہ اور رسول کا نام دئے کر کہ میں مصیبت میں ہوں مجھے بیلنس کروا دیں بعد میں واپس کر دوں گی والی کوئی لڑکی ہو یا سرکاری نوکری کا جھانسا دینے والا ٹھگ سب کی منزل ہے صرف اور صرف غریب جو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر سکتا۔
جب اس کو ایک دم سے امیر بننے کے خواب دکھائے جاتے ہیں تو وہ یک دم بیوقوف بن کہ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بدقسمتی سے کوئی جان بچانے والا مسیحا ہو یا بیوقوف بنانے والا ٹھگ سب کا شکار حالات کا مارا غریب ہے جو گھر کا آٹا پورا کرتا ہے تو چینی ختم چینی کی طرف آتا ہے تو بجلی اور گیس کے بل اس کی کمر توڑ دیتے ہیں،ٹھگووں اور نوسربازوں کا شکار بننے والا یہ غریب سیاستدانوں کے بھی کام آتا ہے۔
ہر سال بجٹ میں ان ہی غریبوں کا نام دئے کر قرض دینے کی سکیمیں بنتی ہیں اور اس قرض کو حاصل کرنے کی شرائظ غریب کی اوقات سے باہر ہوتی ہیں تما م کا تمام قرض سیاستدان لے لیتے ہیں اور پھر غریب کا نام استعمال کر کہ اپنا قرض معاف کر کہ کہتے ہیں ہم نے غریبوں کو قرض دئے کہ ان کا مستقبل روشن کیا ہے۔آخر کب تک غریب ان سب کے ہاتھوں کھلونا بنتا رہے گا یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔