تحریر : راشد علی راشد اعوان جدو جہد آزادی کشمیر کو بہت قریب سے دیکھنے اور اسی جدجہد میں شامل حال رہنے والے مرکزی خطیب جمعیت اہلحدیث اور بالاکوٹ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث آزاد کشمیر کے امیر وشعلہ بیان مقررحضرت مولانا محمد صدیق صدیقی ن کسی تعارف کے محتاج نہیں ،گزشتہ کئی دہائیوں سے براہ راست اسی جدوجہد کا حصہ ہیں،تاریخ کشمیر اور جدو جہد آزادی پر گہری نظر رکھتے ہیں،یونی ویژن نیوز پاکستان نے گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل نشست کی اور اس حوالے سے ان سے مختلف سوالات و جوابات کیے اور ان سے تحریک آزادی کشمیر باالخصوص یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی،مولانا محمد صدیق صدیقی سے ہونے والی بات چیت کو ایک انٹرویو کی صورت میںقارئین کی نظر کیا جا رہا ہے،مولانا محمد صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضروری ہے ہم یوم یکجہتی کشمیر کیوں منا رہے ہیں اور اس کے پس منظر کی تاریخ کیا ہے؟؟دراصل جہاد کشمیر اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقا و سالمیت اور تکمیل کی جنگ بھی ہے، مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیرکے ایجنڈے کا حصہ اور قائداعظم کے الفاظ میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور وہ اپنی تقریروں اور گفتگو میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے اس بنیادی پہلو کو پیش نظر رکھتے تھے۔
قائد اعظم مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں اسلام،اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی بقا کے لئے ضروری سمجھتے تھے اور ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور حق خودارادیت کے لئے جدوجہد نہ کی گئی تو کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے ہاتھوں اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا وہی انجام ہوگا جو قبل ازیں اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا ہوچکاہے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جارحانہ تسلط تقسیم برصغیر کے اصولوں کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق بھی غیر آئینی اور غیرقانونی ہے لہٰذا کشمیری مسلمان اپنی تحریک مزاحمت میں ہر لحاظ سے حق بجانب ہیں جبکہ بھارت کی حیثیت ایک جارح سامراجی قوت کی ہے ،انہوں نے کہا کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی پاکستان کی اقتصادی اور زرعی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے، اس لئے کہ اگر کشمیر پر بھارتی تسلط قائم رہا تو وہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر اور صحرا بنادے گا۔
مولانا محمد صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق 20کروڑ بھارتی مسلمانوں کے بھی بہترین مفاد میں ہے، اس لئے کہ ایک مضبوط اور توانا پاکستان بھارتی مسلمانوں کے دین، تہذیب اور مفادات کے تحفظ کی بہتر ضمانت فراہم کرسکتا ہے،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان اصول و مبادی کو سیاسی نعروں کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ کشمیرکے ساتھ یکجہتی کے ان اصولوں کو پوری قوم ایک سیاسی عقیدے اور ایجنڈے کے طور پراختیار کرے ،انہوں نے کہا کہیوم یکجہتی کشمیر سے پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بیداری اور یکجہتی کی ایک ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ملک کا ہرفرد تحریک آزادی کشمیر کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے عوام تک یہ پیغام بھی پہنچتا ہے کہ وہ بھارت سے آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔
Kashmir Protest
انہوں نے کہا کہ تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے ان تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خود ارادیت کی جو تحریک جاری ہے وہ ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکمیل اور بقا کی تحریک بھی ہے اس تحریک کے دوران اب تک لاکھوں شہداء اپنے مقدس لہو کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں جن میں مر د ، عورتیں، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، اس کے علاوہ اس عرصے کے دوران لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں چنانچہ آج مقبوضہ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد شہید یا زخمی نہ ہوا ہو یا جس کی کسی ماں ، بہن یا بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہو، اسی طرح آج مقبوضہ کشمیر میں بستیوں کی بستیاں ویرانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر کا کوئی شہر یا گاؤں ایسا نہیں ہوگا جہاں شہداء کے مزار نہ ہوں یوں وہ کشمیر جو جنت ارضی کہلاتا تھا، بھارت کی سرکاری دہشت گردی کی وجہ سے موت کی وادی میں تبدیل ہو چکا ہے اور کشمیری عوام نے یہ ساری قربانیاں اپنے حق ِ خودارادیت اور پاکستان کی تکمیل اور بقاء کیلئے دی ہیں،مولانا محمد صدیق صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر کی جدو جہد آزادی میں کئی مواقع ایسے آئے ہیں جن میں کشمیریوں نے بھی یاد گار اقدامات کئے اور پاکستان نے بھی انکی حمایت میں عسکری سیاسی اور سفارتی محاذ پر بے دھڑک اور کھل کر حمایت کی دو جنگیں لڑیں اس لئے بھارت نے تقسیم ہند کے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے کشمیر پر فوج کشی کر دی تھی جو آج تک جاری ہے۔
اس فوج کشی اور اسکے سایہ میں بھارت نے غیر آئینی، غیر اخلاقی اور سیاسی و سفارتی محاذوں پر جس قدر بھی اقدامات کئے کشمیریوں نے انہیں قبول نہیں کیا اور نہ ہی بھارت اپنے ان جبری اقدامات کے حق میں دنیا کے کسی ملک کی حمایت کر سکا ہے، بھارت خود کشمیر کا مسئلہ لیکر اقوام متحدہ میں گیا تھا وہاں کی قراردادوں کیمطابق اسے کشمیریوں کی رائے حاصل کرنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں،مولانا محمد صدیق صدیقی کا کہنا تھا بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو جو کشمیر پر فوجی قبضہ کے ماسٹر مائنڈ تھے نے اپنی پارلیمنٹ میں اور سرینگر کے لال چوک میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدر آمد کرتے ہوئے کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیں گے خواہ اسکے نتائج سے انہیں دکھ ہو گا ان نتائج کا دکھ جواہرلال نہرو اور بھارت کی اب تک کی قیادت کے ذہنوں پر ایک خوف بن کر طاری ہے کہ رائے شماری میں کشمیری پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو ان کا حق دینے سے خوفزدہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کر رہا ہے بھارت کے اس معاندانہ رویہ کے باعث بھارت اور پاکستان میں کشیدگی جاری ہے لیکن کشمیریوں نے اپنے اس حق کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کا عمل جاری رکھا ہے،مولانا محمد صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ پانچ فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن بڑے جوش اور عزم سے مناتے ہیں جلسے جلوس ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مجالس و مذاکروں میں کشمیریوں کی جدوجہد میں حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا جاتا ہے اور وہ اس عزم میں خود بھی شریک ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور نہتے کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور بھارت سورما نشان عبرت بن کر اس پاک دھرتی کے حصے سے بھاگیں گے۔