تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی تاریخ انسانی کے سب سے بڑے ولی اللہ کا بارعب خطاب جاری تھا آپ کی پر جلال آواز گونج رہی تھی اہل بغداد کا ہزاروں کا مجمع تصویر حیرت سے ساکت آپ کا خطاب سن رہے تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور پھر طوفانی مو سلا دھار بارش برسنے لگی بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا اور نہایت درد ناک لہجے میں خدا کو عرض کی اے مالک بے نیاز میں تو صرف تیری مخلوق کو اکٹھا کرتا ہوں اور تُو انہیں منتشر کرنا چاہتا ہے بزرگ کی زبان مبارک سے جیسے ہی الفاظ نکلے بارگاہِ الہی میں قبول ہوئے تو پھر اہل بغداد نے اپنی آنکھوں سے حیرت انگیز منظر دیکھا جہاں پر لوگ تقریر سننے کے لیے جمع تھے وہاں بارش برسنا بند ہو گئی جبکہ میدان کے چاروں طرف موسلا دھار بارش اُسی طرح ہو رہی تھی ہزاروں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے بزرگ کی زندہ کرامت دیکھی کہ جب تک بزرگ تقریر کر تے رہے اہل مجمع پر بارش نہیں ہو رہی تھی جبکہ اطراف میں بارش زوروں سے ہو رہی تھی اِس کرامت کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی پھر پورا ملک آپ کا وعظ سننے کے لیے اُمڈ آتا ملک کے دور دراز علاقوں سے ہدایت کے متوالے اپنی اندھی بے نور وحوں کے ساتھ تقریر سننے آتے اور پھر کثافتوں کو لطافتوں میں تبدیل کر کے گھر لوٹتے ۔
اِسی طرح ایک روز آپ خطاب فرمانے لگے۔ ہزاروں لوگ عقیدت و احترام سے آپ کا وعظ سننے کے لیے جمع تھے ابھی آپ نے تقریر شروع نہیں کی تھی حاضرین مجلس آپس میں گفتگو کر رہے تھے حاضرین میں ایک اور بہت نیک بزرگ شیخ علی بن ابی نصر بھی موجود تھے جو آپ کے بلکل سامنے بیٹھے تھے کیونکہ ابھی تقریر کا آغاز نہیں ہوا تھا اِس لیے اچانک شیخ علی پر غنودگی طاری ہوئی اور آپ کو نیند آگئی بزرگ تقریر کے لیے منبر پر جلوہ افروز ہو ئے تقریر شروع کرنا چاہی ایک نظر ہزاروں لوگوں کو دیکھا پھر بزرگ کی نظر ایک طرف ٹھہر گئی آپ شیخ علی کو دیکھ رہے تھے پھر اچانک بزرگ بولے خاموش ہو جائو خاموش ہو جائو بزرگ کی زبان سے یہ الفاظ جیسے ہی حاضرین کی سماعتوں سے ٹکرائے تو حاضرین مجلس فوراً خاموش ہو گئے ہزاروں لوگ تصویر حیرت بنے خاموش تھے لوگوں کی سانسوں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی پھر اہل مجمع نے ایک اور حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بزرگ اپنے منبر سے نیچے اُتر کر آئے اور سوئے ہو ئے شیخ علی کے سامنے نہایت ادب و احترام سے کھڑے ہو گئے حاضرین اِس غیر متوقع واقع سے حیران تھے کیونکہ اُن کی نظروں نے آج سے پہلے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا۔
بزرگ نہایت پیار، ادب و غور سے شیخ علی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے حاضرین حیران تھے کیونکہ کافی دیر ہو گئی تھی لیکن بزرگ نہایت خاموشی اور ادب سے کھڑے تھے اور پھر جب شیخ علی نیند سے جاگے تو اُنہوں نے اپنی زندگی کے حیران کن منظر کو دیکھا کہ جس بزرگ کا وہ خطبہ سننے آئے تھے جن کے وہ دیوانے تھے وہ احتراما ً اُن کے سامنے کھڑے ہیں شیخ علی کو کچھ بھی سمجھ نہ آیا وہ گھبرا کر فوری کھڑے ہو گئے لیکن بزرگ نے اپنا دستِ شفقت شیخ علی کے کندھے پر رکھا اور دلنواز تبسم سے فرمایا علی آپ بیٹھ جائو لیکن شیخ علی نے عقیدت و احترام سے لبریز لہجے میں کہا یا شیخ آپ کھڑے ہوں تو میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں میں عاجز مسکین یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں ۔ لیکن بزرگ نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹھ جائو علی جب میں کہہ رہا ہوں کہ بیٹھ جائو تو عقیدت کا تقاضہ یہی ہے کہ بیٹھ جائو اب شیخ علی نہ چاہتے ہوئے بھی حکم شیخ پر بیٹھ گئے تو بزرگ مشفقانہ تبسم سے بولے اے علی کیا ابھی تمہارے خواب میں سر تاج الانبیا ء سرور کائنات ۖ نہیں تشریف لائے تھے تو شیخ علی عقیدت سے سرشار اور حیرت سے بولے جی ہاں آپ درست فرما رہے ہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی جب سو رہا تھا تو مجھے محبوب خدا سردار الانبیاء ۖ کی زیارت کی سعادت نصیب ہو ئی ہے توبزرگ بو لے میں سرورِ کو نین ۖ کے احترام میں ہی تو کھڑا تھا۔
Hazrat Mohammad PBUH
شیخ علی عقیدت اور رقت آمیز لہجے میں بو لے یا شیخ کیا سرور دو جہاں ۖ نے آپ کو کوئی ہدایت بھی فرمائی ہے ؟ تو بزرگ بولے جی ہاں مجھے شہنشاہ دو جہاں ۖ کا حکم تھا کہ میں آپ کی خدمت میں احتراماً کھڑا رہوں ۔ شیخ علی کے سامنے کھڑے ہونے والے بزرگ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی تھے ۔ آپ کی شان اور آقائے دو جہاں ۖ کی مجلس میں حاضری اور حضوری کا یہ مقام تھا کہ آپ کی مجلس اور وعظ سننے والوں پر بھی زیارت رسول ۖ کی سعادت نصیب ہوتی تھی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے وعظ سننے والوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ آپ کے دور کے ایک اور بڑے بزرگ شیخ ابو الحسن انصاری شیخ عبدالقادر جیلانی کے وجدان اور حالت ِ کشف کا واقعہ اِسطرح بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کا وعظ سننے کے لیے بغداد پہنچا میرے پہنچنے سے پہلے ہی میدان حاضرین سے بھر چکا تھا لہذا مجھے آخری صفوں میں جگہ ملی حضرت شیخ کا زُہد پر وعظ جاری تھا میں نے دل میں سوچا کاش آپ معرفت پر ارشاد فرمائیں تو آپ نے معرفت پر مدلل اور پر تاثیر فکر انگیز تقریر فرما دی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی نہ سنی تھی پھر میرے دل میں خیال آیا کاش حضرت آج ”شرک ” کے موضوع پر بھی اظہار خیال فرما دیں اور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شیخ جیلانی نے پہلا موضوع بد ل کر شرک پر ایسی جاندار علمی تقریر فرمائی کہ میں حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے منہ سے الفاظ و معانی کا آبشار ابل رہا تھا علم و حکمت کے موتی لٹا رہے تھے ایسا خطاب میں نے پو ری زندگی کبھی نہ سنا تھا ۔ شرک کے اسرار و رموز پر ایسی گفتگو جو میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی میرے ہوش و حواس گم ہو چکے تھے میں تحیر کے آخری درجے پر تھا پھر میں نے سو چا کہ کاش شیخ ” فنا و بقا ” کے پیچیدہ مسئلے پر روشنی فرما دیں اُسی لہجے جناب شیخ نے ” فنا و بقا ” پر سیر حاصل تقریر فرمائی الفاظ معانی کا سیلاب جا ری تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا آج کی محفل جناب شیخ نے میرے لیے ہی سجا ئی ہے میں جو دل میں سوچتا تھا آپ اُسی پر پرُ مغز تقریر فرما دیتے مجھے جناب شیخ عبدالقادر جیلانی کے مقام، شان اور کشف کا اندازہ ہو رہا تھا کہ ہزاروں کے مجمع میں جو میں دل میں سوچ رہا ہوں۔
آپ اُس کا جواب دے رہے ہیں پھر میں نے سوچا کاش حضرت شیخ آج ” غیب و حضور ” کے مشکل مسئلے کو بھی آج آسان کر دیں اور پھر میری حیرت آخری حدوں کو چھونے لگی جب شہنشاہ ِ بغداد نے” غیب و حضور ” جیسے مشکل مو ضوع کو اِسطرح بیان فرمایا کہ میری سالوں کی تشنگی دور ہو ئی میرے دل دماغ کو سکون نصیب ہوا ۔اور پھر شہنشاہِ بغداد کی تقریر ختم ہو ئی تو جناب شیخ نے حاضرین کی آخری صف پر نگاہ ڈالی اور براہِ راست مجھے مخاطب کیا اور کہا اے ابو الحسن کیا تیری تسلی ہو ئی کیا یہ تیرے لیے کا فی ہے ؟ شہنشاہِ بغداد کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے میرے سماعت سے ٹکرائے اور میری حالت غیر ہو گئی حالتِ وجد میں گریبان چاک کر ڈالا اور دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956