کراچی (جیوڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پی آئی اے کے یومیہ 10 کروڑ روپے خسارے کو لازمی سروس ایکٹ کے نفاذ کاجواز قرار دیے جانے کے بعد پاکستان اسٹیل کی بحالی اور خسارے سے نکالنے کے لیے حکومتی کوششوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پی آئی اے کے 10 کروڑ روپے کے یومیہ نقصان پر طاقت کا استعمال کرنے والی وفاقی حکومت یومیہ 6 کروڑ 66 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے والی پاکستان اسٹیل کو کیوں نظر انداز کررہی ہے۔ حکومت کی نج کاری پالیسی پر تنقید کرنے والے ماہرین کا سوال ہے کہ خود فولاد سازی کے کاروبار سے عروج پانے والے حکمراں قومی فولاد ساز ادارے کو بحال کرنے میں کیوں ناکام ہیں،پاکستان اسٹیل کی گیس بحالی کی کوششوں میں حکومتی شخصیات کی عدم دلچسپی بھی ’’دال میں بہت کچھ کالا ‘‘کی نشاندہی کررہی ہے۔
پاکستان اسٹیل کی پیداوار بند ہونے کے بعد سے درآمد شدہ اسٹیل مصنوعات کی بھرمار ہوچکی ہے جس سے قومی خزانے کوبھی ٹیکسوں کی مد میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل کی نج کاری کے لیے وفاق اور سندھ حکومت میں نمائشی بات چیت جاری ہے،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل میں نااہلی اورکرپشن کی وجہ سے اربوں روپے کے خسارے اور واجبات کی وجوہات جاننے اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
نجکاری کمیشن کے مقرر کردہ فنانشل ایڈوائزر کی رپورٹ میں موجودہ انتظامیہ کی اہلیت پر سوال اٹھائے گئے اور واضح الفاظ میں کہا گیا کہ مل کو منافع بخش بنانے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کے ساتھ پروفیشنل انتظامیہ کی تقرری بھی ضروری ہے۔
پاکستان اسٹیل سے قومی خزانے کو یومیہ 6 کروڑ 66 لاکھ روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اسٹیل میں پیداواری سرگرمیاں 8 ماہ سے مکمل بند ہیں اور ماہانہ 2ارب روپے خسارے کا سامنا ہے ادارے کے مجموعی قرضوں اور واجبات کی مالیت 370 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جن میں 168 ارب روپے کا خسارہ اور 202 ارب روپے کے واجبات شامل ہیں،ایک سال کے دوران پاکستان اسٹیل کے قرضوں اور واجبات کی مجموعی مالیت میں 147 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔