تحریر: محمداعظم عظیم اعظم لیجئے، وہی ہوا جس حکومت چاہتی تھی اَب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے کہے پر کتناقائم رہتی ہے؟ یا یہ سب پی آئی اے کے ہڑتالیوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے تھا بہرحال، حکومت نے تو دوٹوک انداز اپناتے ہوئے صاف صاف یہ کہہ دیاہے کہ” پی آئے اے ہڑتالیوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے 120 دِنوں میں نئی ائیرلائن بنائی جائے گی جو 600 سے 700 ملازمین پر مشتمل ہوگی” آج حکومت کی جانب سے آنے والے اِس اعلان سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ حکومت نے پی آئی اے کے موجودہ ہڑتالی ملازمین سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اپنی سُبکی پر نئی ائیر لائن بنانے کا منصوبہ بنالیاہے جواِس بات کا غمازہے کہ حکومت پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے اعلیٰ اور ادنیٰ گریٹ کے ملازمین کی بھرمار سے سخت خائف ہے جس کی وجہ سے حکومت کو پی آئی اے کی خراب ہوتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اِسے فوری طور پر نجی تحویل میں دینے کا اقدام کرناپڑاہے۔
بہر کیف ،آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی قومی حکومت کا قومی اقدام پی آئی اے سمیت دیگر قومی منافع بخش اداروں اور قومی اثاثوں کی نج کاری کرناہی رہ گیاہے جبکہ یہ بھی سب ہی جانتے ہیں کہ موجود ہ ن لیگ کی حکومت نے پچھلے انتخابات میں ووٹ ہی قومی اداروں کی نج کاری کرنے اورقومی اداروں کواپنے من پسند افراد کے ہاتھوںکوڑیوں کے دام فروخت کرکے اِنہیں منافع بخش ادارہ بنانے کے نام پر حاصل کیاتھا۔
مگر اِن دِنوں برسرِ اقتدار جماعت جس طرح ماضی کے باکمال لوگ لاجواب سروس کی حامل پی آئی اے سمیت دیگر اچھے بھلے منافع بخش اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر اپنے ہم خیال(یعنی کہ قومی اداروں کی کسی بھی طرح نج کاری کرنے کی سوچ کے حامل) لوگوں کو تعینات کرکے دو تین سالوں میں اِن اداروں کو خسارے میں چلنے والے ادارے ظاہر کرکے اِن کی نج کاری کے منصوبوں پر عمل پیراہے خود کو قومی حکومت کے حکمران کہلانے والی وزیراعظم کایہ اقدام کسی بھی لحاظ سے ایک پی آئی اے کے ملازمین ہی کو کیا پوری پاکستانی قوم کو بھی قبول نہیں ہے۔
PIA
اِسی طرح آج یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے پچھلے سالوں سے یہ حربہ پی آئی اے پر بھی آزمایااور جب اِس کا روزانہ کا نقصان 10کروڑسے تجاوز کرتے ہوئے سالانہ ساڑھے تین ارب سے دوسالوں میں 6سے 7ارب تک پہنچ گیاتو پھر موجودہ حکومت نے اپنی پہلے سے پلاننگ کے تحت پی آئی اے کوسُدھارنے اور منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے نج کاری کا اعلان کردیاآج اگر اپنے اِس حربے کے تحت برسرِ اقتدار جماعت ن لیگ کے سربراہ اور مُلک کے موجودہ بزنس مائنڈوزیراعظم میاں نوازشریف اور اِن کے سمدھیئے خاص اسحا ق ڈار پی آئی اے کی نج کاری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر مُلک کا کوئی بھی ابدی منافع بخش ادارہ خسارے کی آڑ میں نج کاری سے نہیں بچ سکے گا۔
اگرچہ آج ایک طرف تو گزشتہ بارہ چودہ دِنوں سے پی آئی اے کی مجوزہ نج کار ی کے خلاف قومی ائیر لائن کے ملازمین کے مُلک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتاجارہاہے پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاجی مظاہرے نت نئے انداز سے ہر لمحہ اور ہرروز ایک نیا رخ اختیار کرتے جارہے ہیں اوراَب اِن احتجاجوں اور مظاہروں میںجس طرح کی شدت آتی جارہی ہے یا اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہے گا کہ آنے والے دِنوں میں یہ معاملہ حکومت کے اپنے وجود کوبھی برقرار رکھنے کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتاہے۔
آج یہ سب جانتے ہیں کہ پہلے تو یہ مظاہرے صرف پی آئی اے کے ملازمین تک ہی محدودتھے مگر حکومتی ضد اور اَناکی وجہ سے احتجاجی مظاہرین پر ہونے والے تشدت کی وجہ سے دوملازمین کی شہادت نے حکومت کے سارے چہرے بے نقاب کردیئے ہیں اور آج ایک عام پاکستانی شہری کو بھی یہ لگ پتہ گیاہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور حکومت کے پی آئی اے کی نج کاری سے کیا کیا ذاتی اور سیاسی فائدے ہیں؟؟ آج جس کے خاطرانتہائی کولڈ و بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف کا غصہ اور بلڈ پریشر بھی بڑھ گیاہے اور وہ بھی پی آئی اے کی نج کاری پر کسی طرح بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومتی مشینری کی جانب سے آکی جانے والی شعلہ بیانی اور پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین کو دی جانے والی دھمکیوںاوراِسی طرح دوسری طرف پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے بھی لب و لہجہ میں ساری کشتیاں جلاکر آنے والی سختی کا پیداہونایقینی طور پر کسی تیسری طاقت کی فوری مداخلت کا عندیہ دے رہی ہے اگر حکومت نے قومی اداروں کو خسارے کا ڈھونگ رچاکر اپنے من پسند افراد کے ہاتھوں کوڑیوں کے داموں فروخت کرنے اور قومی اثاثوں اور اداروں کی نج کاری کا اپنا ناپاک منصوبہ فوری طور پر ترک نہ کیاتو مُلک میں جو بھونچال آئے گا وہ حکومت کو ہی تباہ کر جائے گا۔
PIA protesting
بہرحال، منگل 2فروری 2016 کو جب پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیاکہ جب تک حکومت قومی ائیر لائن کی مجوزہ نج کاری منصوبہ مکمل طور پر ختم کرنے کااعلان نہیں کردیتی ہے اُس وقت تک پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کام چھوڑ ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتی ہے تو تب سے اَب تک احتجاجی مظاہروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے (جو اِن سطور کے رقم کرنے تک جاری ہے فلائٹ آپریشن مستقل طور پر بند ہے) اَب جس میں پالیا بھی شامل ہوگئی ہے اور مُلک کی اپوزیشن کی سیاسی و مذہبی اور لیبر وسماجی تنظمیوں کی جانب سے سانحہ پی آئی اے پر مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور قومی سیاسی رہنماؤں تجزیہ کاروں کایہ کہناہے کہ آج اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوث حکومتی اراکین اور حکومتی مشینری کو کڑی سزامل جاتی تو دوفروری کو حکومت اور حکومتی مشینری کو نہتے پی آئی اے کے احتجاجی مظاہریں پر بیدریغ گولیاں چلانے اور تشددکرنے کی یوں ہمت نہ ہوتی مگر چونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حکومتی دہشت گردی میں ملوث عناصر کا بال بھی بیگانہ ہواتو جناح ٹرمینل کراچی میں بھی حکومتی مشینری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح کا ایک نیاسانحہ پی آئی اے رونماکردیا اِس میں یہ نقطہ معمہ بناناہواہے کہ” گولی کس نے چلائی” اَب یہ گتھی کون سُلجھائے گا جبکہ پاکستان رینجرز نے اِس سانحہ کی تحقیقات کرنے اور فائرنگ میں ملوث عناصر کو کیفرِ کردار پہنچانے کے لئے ایک کمیٹی بنادی ہے جو پی آئی اے ملازمین پر فائرنگ کے پیش آئے واقعے کی تحقیقات کررہی ہے دیکھتے ہیں کیا نتیجہ یا نتائج نکلتے ہیں؟۔
اگرچہ دوفروری سے شروع ہونے والے مُلک گیر پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاج کے دوران پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین نے قومی ائیر لائن کی نج کاری کے خلاف کراچی میں پی آئی اے ہیڈ آفس سے ریلی نکالی اورجیسے ہی پی آئی اے ملازمین نے جناح ٹرمینل کراچی پر دھاوابولا تو پولیس کومظاہرین کو روکنے کے لئے واٹرکینن کا استعال اور آنسوگیس کی شیلنگ اور رینجرز کو لاٹھی چارج کرنی پڑی جبکہ مظاہرین پر آزادانہ لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیاگیا۔
جبکہ پی آئی اے کے مرکزی آفس کے قریب احتجاجی مظاہرین کے رینجرز اور پولیس کے ساتھ ہونے والے تصادم کے نتیجے میں قومی ائیرلائن کے اسسٹنٹ میجر سمیت 2ملازمین(موجودہ بزنس مائنڈ اور ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنے ادارے کو فروخت ہونے سے بچانے کے لئے احتجاج کرتے ہوئے) جان بحق (شہید ہوئے) جبکہ صحافیوں سمیت ایک درجن سے زائد افرادزخمی ہوئے ۔
جیسے ہی پی آئی اے کے نہتے اور اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنے ادارے کو کوڑیوں کے دام فروخت ہونے سے بچاتے ہوئے حکومتی دہشت گردی سے دو ملازمین کی شہادت اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع مُلک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاجی مظاہروں میں مُلک کی دوسری ورکرزیونیز کے نمائندوں اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور کارکنان کی بڑی تعداد بھی شامل ہوگئی ہے جو آج بھی پی آئی اے کے ملازمین کی نوکریوں کے تحفظ اور قومی ادارے کی نج کاری ہونے سے بچانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اوردوسری جانب وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت کے نامی گرامی سینیئر اور جونیئر وزرااور اراکین پارلیمنٹ ہیں جو قومی ائیر لائن کی نج کاری کا پہلے ہی سے منصوبہ بناچکے اور اَب جن کا خیال بس یہ ہے کہ جیسے بھی سنگین حالات ہوجائیں اِن سب نے یہ تہیہ کررکھا ہے کہ تمام رکاوٹوں کو گراتے ہوئے جس قدر بھی جلد ممکن ہوسکے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کو اپنے من پسند لوگوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کردیں گے آج حکومت اِن سے جس کی زبان کرچکی ہے ۔
Nawaz Sharif
یوں ایک طرف پی آئی اے کی غیوراور محبِ وطن محنت کش ملازمین ہیں جو اپنے ادارے کو بزنس مائنڈ وزیراعظم نواز شریف اور اِن کے ہم خیال اور ہم نوالہ بیوپاریوں کے ہاتھ قربانی کے بکرے کی طرح فروخت ہونے کے خلاف اپنی مقدس جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرکے قومی ائیر لائن کو بچانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں توایسے میں دوسری جانب بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت ہے جو پی آئی اے جیسے دنیابھر میں سفیرے پاکستان کا درجہ پانے والے قومی ادارے کو سالانہ ساڑھے تین سو ارب خسارے کا ڈھونگ رچا کر اپنے پسند کے امیر زادوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کی ضد میں ہر اُس حد کو بھی پار کرنے پرتلی بیٹھی ہے جہاں نوازحکومت کا رہاسہا وقار بھی خاک میں ملتاہوادکھاجاسکتاہے۔
ایسے میں کوئی کچھ بھی کہئے مگر آج اِس سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے کہ ایسالگتاہے کہ جیسے مستقبل قریب میں(یعنی کہ دواڑھائی سال بعد جب ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوچکاہوگاتب) وزیراعظم نوازشریف کو پی آئی اے سے اپنے ذاتی اور تجارتی فائدے حاصل کرنے ہیں یا یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ اپنی حکومت کے خاتمے کے کچھ سال بعد نوازشریف پی آئی اے کے مالک کے طور پر خود کو متعارف کرادیں اور یہ تب بتائیں کہ اُنہوں نے قومی ائیرلائن کی نج کاری کے لئے کیسے کیسے پاپڑ بیلے تھے یہ اُسی محنت اور مشقت کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ اِس کے مالک ہیں ۔
آج اِس وجہ سے یہ اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل قومی ائیر لائن کی نج کاری چاہتے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وزیراعظم نوازشریف نے انتہائی غصے کے عالم میں یہ کیوں کہاہے کہ” آج پی آئی اے میں ہڑتال اور دھمکیاں دینے والوں کو خمیازہ بھگتناہوگا، ہڑتال اور دھمکیوں کا کلچر قبول نہیں، ہڑتال میںشریک ملازمین کو نوکری سے فارغ کردیاجائے گا” کام کرنے والوں کو انعام دیاجائے گا، پی آئی اے کو روزانہ دس کروڑ کا نقصان ہورہاہے ”۔
بہرکیف ،آج وزیراعظم نوازشریف قوم کو یہ سچ سچ بتاہی دیں کہ اِن کی سوچ تاجروں والی ہے؟ سیاستدانوں والی ہے؟ یا وزیراعظم والی ہے،آج جوبالخصوص پی آئی اے دیگر قومی منافع بخش اداروں کو خسارے کا ڈھونگ رچاکراِن کی فوری نج کاری کرنے کی منصوبہ کررہے ہیں آج یقینی طور پر وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے حکومتی وزراء کی سنجیدگی اور پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین سے متعلق دھمکی آمیز بیان بازی سے ایسالگتاہے کہ آج وزیراعظم سمیت اِن کے سمدھیئے خاص اسحاق ڈار اور دیگر حکومتی وفاقی وزراء اورن لیگ کے اراکین پارلیمنٹ ذاتیں صرف تاجرانہ صفات کے منبع ہیں ….
آج اگر وزیراعظم نوازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے کو واقعی روزانہ دس کروڑ کانقصان پہنچ رہاہے تویہاں میں وزیراعظم کے 2012کے اِس بیان کا حوالہ پیش کروں گا جب اُنہوں نے پی آئی اے کی نج کاری روکنے کے لئے اُس وقت کی حکومت کو یہ مشورہ دیاتھاکہ اِس نقصان اور سالانہ ساڑھے تین سوارب کے ہونے والے خسارے کو امریکا کے معاشی حب کہلانے والے شہرنیویارک کی 42سیکنڈاسٹریٹ ہیٹن میں واقع پی آئی اے کا 1009کمروں پر مشتمل روزویلڈ /ویٹل نامی ہوٹل جو اپنے قیام سے اَب تک کبھی بھی خسارے میں نہیں گیاہے اور یہ ایک مہنگاترین ہوٹل ہے اِسے ہی وزیراعظم فروخت کرکے پی آئی اے کوخسارے نکال دیں”یقینا پی آئی اے کایہ اثاثہ ہے جو اتنامہنگاترین ہوٹل ہے کہ اِس میں پی آئی اے کا اپناکُرو بھی نہیں ٹھیرتاہے آج اگر پی آئی اے کی نج کاری کے بہانے اِس ہوٹل کی خریداری کے لئے محترم المقام جناب وزیراعظم نوازشریف یا اِن کے سمدھیئے خاص وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی نظر ہے تو یہ اور بات ہے؟
ورنہ تو وزیراعظم اور وزیرخزانہ اِس ایک ہوٹل کی نج کاری کرکے ہی پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے میں اپنااہم اور کلیدی کردار اداکرسکتے ہیں اور اگر ایسانہیں ہے تو پھر ذرائع سے یہ پتہ چلاہے کہ نواز حکومت پی آئی اے کی خسارے کے باعث نج کاری کا عمل شروع کرچکی ہے اور کراچی میں کارساز کے مقام پر واقع پی آئی اے کُرو سینٹر جس کی موجودہ مالیات 25سے 30کروڑ ہے اِسے بھی عنقریب اپنے کسی من پسند شخص یا افراد کے ہاتھوں کوڑیوں کے دام1کروڑ 15سے 17لاکھ میں کیوں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔؟؟ اَب کیاایسے میں قوم کے ذہن میں یہ خیال پیدانہیںہوگاکہ وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت میں شامل دیگر بزنس مائنڈ وزراء اور سیاست دان بعدازحکومت اپنے مستقل اور دیرپا کاروبارومقاصد کے حصول کے خاطر قومی اداروں کو خسارے کا ڈھونگ رچاکر اونے پونے داموں فروخت کرکے مستقبل قریب میں اپنے کاروباری فائدے کا سوچ رہے ہیں یاآج جِسے یہ فروخت کررہے ہیں اِس سے بعد میں خود خریدکر مالک بن جائیں گے۔