تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی ضلع لیہ میں سیاسی اتار چڑھائو کے ساتھ ساتھ ”راہنما یان ِ قوم ” اور ”غریب پرور ” نمائندگان کی قلا با زیاںتو ہر دور میں رہی ہیں اُکھاڑ پچھاڑ بھی ہوتی رہتی ہے اب چیئرمین شپ کے لیے بھی ”اِتوار بازار ”سجایا جا رہا ہے کہیں سے اینٹ اُکھا ڑی جا رہی ہے تو کسی جگہ سے روڑا ہٹا یا جا رہا ہے نون والے ”انصاف ” کی چھتری تلے تو آزاد ”پنچھی ” بھی کسی”مناسب” گھونسلے کی تلاش میں مصروف ِ عمل ہیں۔۔۔۔۔اورجب اِن اُڑن کھٹولوں سے رائے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب موصول ہوتا ہے یہ سب ہم اپنے اپنے حلقہ کی عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کر رہے ہیں یہ ایسے”غریب پرور ” نمائندگان ہیں جن کو حلقہ کے کسی غریب اور یتیم کی مدد کیے اور کسی یتیم و بے سہارا بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھے بغیر روٹی بھی ہضم نہیں ہو تی ، جتنا ماہی بے آب کی طرح اِن عوامی نمائندگان کو میں نے بے تاب دیکھا ہے شاید ہی کسی اور علاقہ میں کوئی نمائندہ اتنا بے چین اور بے تاب ہو ، یہ ہمارے ”غریب پرور ” نمائندگان ہی ہیں جن کی شبانہ روز عوامی اور قومی مفادات کی خاطر بھاگ دوڑ کی وجہ سے آج ضلع لیہ کا ہر شہری سکون کی نیند سو رہا ہے ، ہر بے روز گار کو روز گار کے فرسٹ کلاس اور اعلیٰ ترین مواقع میسر ہیں ، کار خانوں اور ملوں کا ایک وسیع نیٹ ورک دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ضلع لیہ کے ہر بچے کو تعلیم کی مفت سہولیات میسر ہیں ، بین الاقوامی معلومات سے استفادہ کے لیے ”نیٹ کلبز ” کی بھر مار ہے جہاں سے ہماری نو جوان نسل ”اعلیٰ اخلاقی اقدار” اور سُنہری روایات سیکھ رہی ہے اور اِس کا سارا ثواب ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ”کے کھاتے میں لکھا جا رہا ہے چورا چکاری کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، مقامی انتظامیہ سکون سے خواب ِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے کیونکہ تھانے ویران پڑے ہوئے ہیں عوام چھوٹے موٹے مسائل ”غریب پرور ” نمائندگان کے رحم و کرم سے اب اپنی دہلیز پر ہی حل کر رہی ہے ، سسکتے ، بلکتے اور تڑپتے مریضوں کو مہنگی سے مہنگی ترین ادویات اب اُن کے گھروں میں پہنچا ئی جا رہی ہیں۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہے فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے اور کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے اب صرف 8گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے ، گیس کا ٹکڑا بڑی مِنتوں ،مَنتوں ، ترلوں اورمشکل سے ملا تھا وہ بھی حکمرانوں کی ”بہتر پلاننگ اور ایمانداری” کی وجہ سے سسک سسک کے اور رینگ رینگ کے نصیب ہورہی ہے اورگیس کے چولہوں سے نکلنے والی آگ کا الائو ایسا ہے جیسے آگِ نمرود کو بجھا نے کے لیے چڑیا کی چونچ میں پانی کا قطرہ ۔۔۔۔۔۔۔گھریلو خواتین جب ایک پائو دال پکانے کے لیے گھنٹوں چولہے پر رکھی ہانڈی کا ڈھکن اُٹھا اُٹھا کے دیکھتی ہیں تو ”غریب پرور ” حکمرانوں اور عوامی نمائندگان کو ”دُعائوں ” سے نوازتی ہیںاور خاص کر ”جگی شریف ” کے لاڈلے سجادہ نشین کو دوپٹے اُٹھا اُٹھا کر ”دُعائیں ” دیتی ہوئی نظر آتی ہیں ،اتنی زیادہ ”سہولتوں ” کی فراہمی پر عوام کو چاہیے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اِن ”محب وطن ” اُمیدواروں کی بھر پور طریقے سے ”سواگت ” کریں تاکہ اِن کی عقل ٹھکانے لگ سکے۔
Sui Gas
چند سال پہلے سوئی گیس کی فراہمی کے ایک اور فیز کا افتتاح ہو ا تھامگر اس کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا تھاسب سے پہلے آستانہ عالیہ جگی شریف کے دبنگ اور بھاری بھر کم سجادہ نشین نے اپنے” مقدس” ہا تھوں سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ افتتا حی فیتہ کاٹا ،حواریوں اور خوشامدیوں کی طرف سے خوشامد سے بھر پور”پیر صاحب ” کو مبارکباد کے رنگ برنگے بینر ز ہوا میں معلق ہوتے ہوئے نظر آئے جن پر مختلف زاویوں سے رنگ بازی واضع نظر آرہی تھی مگر پھر کیا ہوا اچانک ”بلو چ ٹرمینل ” سے 165کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی منہ زورآندھیوں نے ہوا میں معلق بینرز کا وہ حشر نشر کیاتھا جس طرح ابرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ ابابیلوں نے کیا تھا ، مبارکباد اور خوشامدی قصیدوں پر مشتمل لگے بینرز کو پھیتی پھیتی کر دیا گیا تھااور اعلان کروادیا گیا تھاکہ چند دن بعد مختلف سیاسی ، سماجی اور سر کاری تقریبات میں اپنی نیند پوری کرنے والے عجوبہ ٹائپ سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ اپنے ”قد کاٹھ ” کے مطابق دن کی پنہائیوں میں آناََ فاناََ تیار کی گئی تختی کی نقاب کشائی کریں گے اور پھر واقعی نقاب کشائی کی گئی تھی اورالیکشن 2013ء میں تو دونوں گروپ گیس کی سہولت کی دستیابی کے دعویدار بھی رہے۔
بہر حال یہ وفاق کی ملکیت ہے صوبہ کی طرف کیسے ٹرانسفر ہو گئی ؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اندر کی کہانی پھر کسی موقع پر اُٹھا رکھتے ہیں کہ اس کو لانے کا سہرا کس کے سر رہاہے ؟اب پھر سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے اور دھڑا دھڑ کھُدائی ہو رہی ہے معلوم نہیں کب اِن کھُدائی کیے گئے گہرے کھُڈوں میں موجود پائپوں میں گیس کب آئے گی ۔۔۔۔۔۔؟ اب ہر فصلی اور نقلی بٹیرہ کسی چھتر چھا ئوں کی تلاش میں سر گر داں ہے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ دولت کے بل بوتے پر”برائلرکُکڑو کوں ” کے نشان پر ایم پی اے کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے والے نو دولتیے ”اصحابِ انصاف” کو قابو کرنے کے لیے حکومتی غلام گردشوں کی راہداریوں سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے کروڑوں کے بے دریغ فنڈزاور نوکریوں کا جھانسا بھی دیا ہے اب دیکھتے ہیں کون کون ”غریب پرور ” راہنما اِن جھانسوں میں آتے ہیں۔
تین سال ہو گئے ہیں مگر حالات جوں کے توں ہیں ضلع لیہ کے نمائندگان اپنے بینک بیلنس میں تو ضرور اضافہ کر رہے ہیں بلکہ سننے میں آیا ہے کہ مگسی خاندان کا ”لاڈلا چشم و چراغ”غریبوں کی دولت کے بل بوتے پر ہر مہینے گاڑی کا ماڈل بدل رہا ہے چوبارہ کی عوام آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے شب و روز مکمل کر رہی ہے غریب وہیں کھڑا ہے جہاں 10 سال پہلے کھڑا تھا ، ہسپتالوں میں آج بھی غریب کی شُنوائی نہیں ہو رہی ،دھکے دھوڑے اُس کا مقدر ہیں ،تھانوں میں بھی وڈیرے اور لٹیرے کو تو پروٹول دیا جاتا ہے مگر غریب بے چارے کو تو آج بھی کسی وڈیرے کے ظلم کی شکایت درج کرانے کے لیے ایک کانسٹیبل تھانے کی دہلیز بھی پار نہیں کرنے دیتا ،دھکے مروا مروا کے اُس کا حشر نشر کردیتا ہے،مگر ”چوہدری ” ”پیر ” ”مگسی ” ”سیہڑ ” اور اَچلانے ” کی مس کال کر بھی پولیس افسر اپنا سب کچھ ” مِس ”کر کے اِن کے لیے ” جی سر ” ” یس سر ”کی گردان الاپتے الاپتے اور ہانپتے ہوئے نا جائز کام بھی کر گزرتے ہیں۔
Wine
شراب کی بھٹیاں عام تیار ہو رہی ہیں، شاپر ز میں روزانہ لاکھوں روپے کی شراب ضلع لیہ کے باسیوں میں فروخت کی جا رہی ہے ،جُوا کے اڈے سر عام چل رہے ہیں ،زمینوں پر قبضے کی سیاست بھی عام ہے غریب پرور نمائندگان کے ٹائوٹس جو اُنہوں نے ہر برادری میں پال رکھے ہیں اُن کے وارے نیارے ہیں اُن کی دیہاڑیاں پکی ہیں آرائیں برادری ، بھٹی برادری ، ہانس برادری ، جوتہ برادری ، شیخ برادری ، بلوچ برادری ، کمہار برادر ، انگڑا برادری ، مہر برادری ، خان برادری ، گڑیانوی برادری ، سیہڑ برادری ، کنجال برادری ،مگسی برادری ، اِچلانہ برادری ، جکھڑ برادری ،کھتران برادری ، سہو برادری الغرض ہر برادری میں دو چار ٹائوٹس موجود ہیں جن کے چہرے بھی مجھے یاد ہیں اور اُن کے ”شجرہ نسب ” سے بھی مجھے اچھی طرح واقفیت ہے جن کے پاس کل سائیکل نہیں تھی آج وہ ”دلالی ” کی بنیاد پر کرولا گاڑیوںکے مالک بنے پھرتے ہیں کل مجھے ایک دوست نے شریفین والبریفین کی شان میں اُن کی ”تین سالہ” کارکردگی پر ایک نظم بھیجی تھی جو میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے ضلع لیہ کے ”غریب پرور نمائندگان ” کے نام کروں نظم ملاحظہ کیجیے
کہندے سن خوشحالی آسی ہر مُکھڑے تے لالی آسی رونق اُڑ گئی چہراں دی جیوے جوڑی شیراں دی ٹیکس روزانہ تُنی جاندے گنجیاں نوں وی مُنی جاندے جرات ویکھ دلیراں دی جیوے جوڑی شیراں دی ڈیزل تے پٹرول وی مہنگے آٹا چینی چول وی مہنگے ماچس ہو گئی تیراں دی جیوے جوڑی شیراں دی کھَنڈ لیاواں گھیو مُک جاوے ویکھ مہنگائی ساہ سُک جاوے ہانڈی چاڑاں بیراں دی جیوے جوڑی شیراں دی گیس کونی بتی کونی فکر اینہاں کوں رتی کونی شاہی گھُپ انہیراں دی جیوے جوڑی شیراں دی
ضلع لیہ کی عوام اِن ”نمائندگان ”کو شاکر شجاع آبادی کی زبان میں بس اتنا کہنا چاہتی ہے کہ جے تنگ ہوویں ساڈی ذات کِنوں ڈے صاف ڈسا تیڈی جان چھُٹے رب توں منگی ضائع نئیں تھیندی منگ ڈیکھ دُعا تیڈی جان چھُٹے تیکوں پیار کیتم تیڈاں مجرم ہاں ڈے سخت سزا تیڈی جان چھُٹے ایویں مار نہ شاکر قسطیں وِچ یک مُشت مُکا تیڈی جان چھُٹے کیونکہ کشور حسین ، مرکز ِ یقین ،پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان پر صرف اور صرف چند خاندان ہی حقِ حکمرانی رکھتے ہیں یہ زمین اِن کے لیے سونے کی چڑیا کی مانند ہے اور غریب پر یہ زمین تنگ ہے بلکہ اِن حکمرانوں نے تنگ کی ہوئی ہے جاتے جاتے ایک شاہی ترانہ بھی سُن لیں تاکہ حکمرانوں کی اصلیت کا پتہ چل جائے نواز کی زمین شاد باد بجلی آئے آٹھ گھنٹے بعد تو نشانِ کرپشن عالی شان ارضِ نوازستان شاد باد لاہور رہے آباد نواز کی زمین کا نظام آٹا گیس بجلی کا بحران قوم ملک سب غرق نواز کو نہیں پڑتا کوئی فرق پرچم ستارہ ہلال خون میں رنگا سارا سال میٹرو ٹرین پائندہ باد بھول اپنا ماضی شانِ حال جانِ استقبال حکمرانوں پر سایہء امریکہ سوار آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے کل نئے موضوع کے ساتھ حاضر ہوں گے تب تک کے لیے اللہ حافظ ۔۔۔۔۔۔: