تحریر : عبدالرزاق میں نے اکثر اپنے مضامین میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے۔ اسلام تو ہے ہی سراپا سلامتی۔ کسی کو تکلیف پہنچانا، کسی کو دکھ دینا کسی کے جان ومال سے کھیلنا اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی عمل ہے۔ ایک سچا مسلمان تو حق گو بھی ہے منصف بھی ہے انسان دوست بھی ہے اور معاشرتی روا داری کا علمبردار بھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امن کا داعی بھی ہے۔ ایک مسلمان مومن تو خلوص، ایثار اور قربانی کا مرقع ہوتا ہے۔ وہ تو ایسا پر امن سمندر ہوتا ہے جس کی لہروں پر انسانیت کا درد سنہری حروف میں درج ہے اور وہ اپنی تہہ میں پوشیدہ سلامتی کے خزانے لب ساحل منتقل کرتا رہتا ہے اور پھر اسلامی نظام ہی تو ایسا نظام ہے جو ہر اعتبار سے متوازن ہے اور انسان کے انسان پرحقوق کے حوالے سے جو قوانیں اسلام میں میسر ہیں کوئی دوسرا نظام اس کے قریب قریب بھی نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے چند مفاد پرست عناصر نے اسلام دشمنی میں منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
اسلامی تعلیمات کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر توڑ مروڑ کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جو دین حق کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کے ان پہلووں کو اجاگر کرنے پر تلے ہوے ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں۔میں عموماامریکی دہرے معیار اور سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے قلم کا سہارا لیتا ہوں لیکن پہلی مرتبہ مجھے کسی امریکی صدر کے اقدام کی خوشی ہوئی ہے جسے رقم کرنا بھی میرا فرض ہے۔
امریکی صدر باراک اوبامہ جنہوں نے اپنے اقتدار کے دوران پہلی مرتبہ ایک مسجد کا دورہ کیا اور وہاں انہوں نے جو خطاب کیا قابل قدر بھی ہے اور صاحب بصیرت و ادراک حضرات کے لیے قابل غور بھی۔باراک اوبامہ کا کہنا تھا کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔ اسلام محبت کا درس دیتا ہے اور اسلام پر حملہ کرنا تمام مذاہب پر حملہ کرنے نے کے مترادف ہے۔ اگر یہ کلمات کسی اسلامی ملک کے حکمران کی جانب سے جاری کیے گئے ہوتے تو قطعی اچنبھے کی بات نہ تھی کیونکہ مسلم حکمرانوں کا تو فرض ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے اسلامی تعلیمات کی ترویج کی کوشش کریں اور اسلام کا حقیقی چہرہ و تشخص عالمی دنیا کی نگاہوں میں اجاگر کریں لیکن ایک غیر مسلم حکمران کے منہ سے اسلامی تعلیمات کا یوں برملا اعتراف باعث مسرت ہے۔باراک اوبامہ نے اپنے خطاب میں مذید فرمایا کہ مسلمانوں کی اکثریت پر امن اور محب وطن ہے لہٰذا ان کا مثبت امیج میڈیا میں پیش کیا جائے اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتھی نہ کیا جائے۔
Barack Obama Mosque Visit
انہوں نے واضح کیا کہ القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد اور سفاک تنظیمیں اسلام کا حقیقی چہرہ نہیں ہیں۔ان تنظیموں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کی غلط تشریح کی ہے اور اسلام کو بدنام کیا ہے اس لیے ان تنظیموں کا تعلق اسلام سے جوڑنا درست نہیں۔مسلمانوں کے جید علمائے اکرام اور اکابرین ان تنظیموں سے دوری برقرار رکھے ہوے ہیں اور وہ اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور کھل کر ان تنظیموں کی مذمت کرتے ہیں۔
باراک اوبامہ نے اس موقع پر نہایت عمدہ بات کی کہ ان دو تنظیموں نے جس قوم کا زیادہ نقصان کیا ہے وہ مسلمان قوم ہے اور پھر یہ کس طرح مسلمانوں کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان دو تنظیموں کو مسلمانوں سے الگ کر کے پیش کیا جائے ان کا دور دور تک بھی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے تمام مذاہب پر زوردیتے ہوے کہا کہ ہر مذہب کے پیروکاروں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کا باہم احترام کریں تا کہ ان منفی عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے جو مذاہب کا باہم تصادم کروانے پر کمر بستہ ہیں۔
باراک اوبامہ کے خطاب کے دوران وہ منظر دیدنی تھا جب وہ سورہ حجرات کا حوالہ دیتے ہوے مخاطب ہوے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قبائل میں پیدا کیا تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جبکہ کسی ایک کو کسی دوسرے پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ہے انہوں نے مذید ایک آیت کا تذکرہ کرتے ہوے فرمایا کہ کسی بے گناہ کا قتل دراصل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
صدر اوبامہ نے کہا کہ شر پسند عناصر نے شیعہ اور سنی کو تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے حالانکہ اک مدت سے دونوں فرقے محبت و امن اور خوش اسلوبی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایسے فتنہ پرور عناصر سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو ان دو فرقوں کی باہمی منافرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں ۔امریکی صدر کے اس انداز تخاطب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اس خطاب میں اسلام کی عظمت کا برملا اعتراف کیا ہے جو قابل ستائش ہے ۔صدر اوبامہ نے اپنے منہ سے جو الفاط ادا کیے وہ درحقیقت ہر باشعور مسلمان کے دل کی آواز ہے۔
Islamic Teaching
اگر ہم امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس تاریخی خطاب کا تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلامی تعلیمات اتنی واضح ہیں کہ غیر مسلم بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور بالخصوص وہ افراد جن کی رسائی مغربی ممالک کے اقتدار کے ایوانوں میں ہے اسلام کے فلسفہ و فکر سے بخوبی آشنا ہیں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کے پس پردہ محرکات کے تانے بانے دانستہ مسلمانوں سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ دراصل ذاتی مفادات کے کھیل میں ہر ملک کی نظر اپنے ملکی مفاد پر مرکوز ہوتی ہے اور اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ دوسرے ملک کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات کو سیراب کر لیتا ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک بھی کچھ اسی قسم کا کھیل مسلم ممالک سے کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ وہ زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ ہیں۔باراک اوبامہ کے حالیہ خطاب سے جو انہوں نے بالٹی مور کی مسجد الرحمٰن کے دورہ کے موقع پر اسلامک سوسائٹی سے کیا ہے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اوبامہ اسلامی نقطہ نظر سے مکمل آگاہ ہیں جبکہ تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ غیر مسلموں نے قران اور حدیث کو بنیاد بنا کر کئی ایجادات کی ہیں اور ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیے ہیں۔
باقی رہا سوال ان ممالک کا دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کا۔ تو یہ کھیل اس لیے رچایا جاتا ہے کہ مسلمان ممالک کو دفاعی پوزیش پر کھڑا کر دیا جائے اور پھر اسی تناظر میں امریکہ اور مغربی ممالک اپنے مقاصد حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ذرا ایک لمحہ کے لیے غور کیجیے امریکی صدر نے شیعہ سنی نفاق کا جو نقطہ اٹھایا ہے کیا یہ ہمارے لیے باعث ندامت نہیں ہے ۔ ہمیں امریکی صدر کے ان الفاظ کو دل پر لینا ہو گا اور عہد کرنا ہو گا ہم اپنے فروعی مسائل کو پاتال کے نہاں گوشہ میں کہیں دفن کر دیں گے اور یک جہتی و یگانگت کی ایسی مثال قائم کریں گے کہ آئندہ کوئی امریکی صدر ہمارے باہمی نفاق کو اپنے خطاب کا مرکزی محور نہ بنا سکے۔