تحریر : طارق حسین بٹ پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بزعمِ خویش یہ سمجھتی ہیں کہ الیکشن میں ان کا جیت جانا ہی ان کا ہر قسم کا احتساب ہوتا ہے لہذ ا اس طرح کی فتح کے بعد منتخب نمائندوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف ہوتا ہے لہذا منتخب ممبران کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے ۔ اگر عوام یہ سمجھتے ہوں کہ ہم کرپٹ ،بھتہ خور اور ٹاگٹ کلر ہیں تو پھر وہ ہمیں اپنے مینڈیٹ سے کیوں نوازتے۔ان کا ہمیں ووٹ دینا اس بات کا دوٹوک اعلان ہے کہ وہ ہمارے کردار کے بارے میں بالکل واضح ہیں اور ہمیں عنانِ حکومت سنبھا لنے اور امورِسلطنت سر انجا،م دینے کے اہل سمجھتے ہیں۔اس میںشک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ الیکشن جیتنا اور علیحدہ عمل ہے جبکہ احتساب ایک بالکل علیحدہ عمل ہے۔
پوری دنیا میں انتخابات ہوتے ہیں لیکن وہاں پر لوگ خود کو قانون کے سامنے سرنگوں سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان میں اہلِ اقتدار طبقہ خود کو ہر قسم کے احتساب سے بالا تر گردانتا ہے۔اس طرح کی غلط سوچ نے جو گل کھلائے ہیں اور معاشرے کو جس بے راہ روی اور عدمِ جوابدہی کی ڈگر پر ڈال دیا ہے اس کے ہولناک اثرات ہم اپنی کھی آنکھوں کے ساتھ روز دیکھتے ہیں۔ کوئی شخص بھی ٰ قانون کا اھترام کرنے اور اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ قا نون سے کھلواڑ کا سبق اس نے اپنے قائدین سے لیا ہوا ہوتاہے۔جب قائدین ہی قانون کی دھجیا بکھیرنے لگ جائیں گئے تو پھر اس بات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ عوام قانون کی پاسداری کا مظا ہرہ کریں گئے۔
قانون اگر جانبدار ہو جائے تو معاشرے تبا ہو بر باد ہو جاتے ہیں ۔ریاست کی سب سے اہم ذمہ داری عوام کو امن و امان مہیا کرنا ور انصاف کو برئے کار لانے کے فرض کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ہمیں اپنے معاشرے میں جس طرح کا بگاڑ اور حرص و طمع کا طوفانِ بدتمیزی نظر آ رہا ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ ہمارے قائدین کی دولت اکٹھی کرنا اور لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کی روش ہے۔کسی بھی سیاسی قائد ی زندگی کو اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائیگا کہ ہمارے قومی قائدین ملکی خزانے کے ساتھ کتنے خلص ہیں۔
Rangers
اگر ہم اس وقت کراچی کی بات کریں جہاں پر رینجرز کے اختیارات کے سلسلے میں پی پی پی خوف اور ڈر کا شکار ہے تو ساری صورتِ حال بالکل واضح ہو جائے گی ۔شرجیل میمن،منور تالپور اور ڈاکٹر عاصم کے کارنامے پی پی پی کے خوف میں اضافے کے اشارے دے رہے ہیں ۔ڈاکٹر ذولفقار مرزا نے جس طرح پی پی پی کی صفوں میں کالی بھیڑوں کی نشا ن دہی کی ہے وہ پی پی پی کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہے۔کتنے فرنٹ مین اور وچولے رینجرز کے خوف سے ملک چھوڑ کر فرار چکے ہیں ،کچھ رو پوش ہیں اور کچھ جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں اور بدقسمتی سے ان سب پر کرپشن اور دولت کی لوٹ مار کے الزشامات ہیں۔یہ الزامات سچ ہوں یا نہ ہوں عوام کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی دولت کے ساتھ قصابوں والا ہاتھ کیا جا رہا ہے۔ صحت اور تعلیم کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
غریب انسان کے لئے اپنے علاج کے اخراجات کو برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں اور ڈاکٹر نہیں ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں بیٹھے ڈاکٹرز عوام کو ذبح کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔وہ کند چھری سے عوام کو ذبح کرنے کے لئے چوکس اور تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ انھیں طفل تسلیاں دے کر لوٹنے میں مصروف ہیں اور عوام کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں جہاں پر وہ تحفظِ خویش کو یقینی بنا سکیں۔وہ کھلی آنکھوں سے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور قوم کے ناخدا انھیں لوٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مشغول ہیں۔وہ اپنی کمزور معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں کا بوجھ اٹھانے سے معذور ہیں لیکن پھر بھی اپنے پیاروں کی زندگی کی خاطر یہ بوجھ اٹھا رہے ہیں جبکہ ریاست ان کے لئے اس بنیادی ضرورت کو پوری کرنے میں مکمل طور پر غیر سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔
عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ خزانہ جو ان کے ٹیکسوں سے بھرا جاتا ہے کہاں پر صرف ہو رہا ہے؟گیس و بجلی برائے نام ہے اور گلی محلوں میں نالیوں اور گٹروں کی حالتِ زار ان کا جینا حرام کئے ہوئے ہے۔ٹوٹی سڑکیں ان کے زخموں پر نمک پاشی کا ایک اور ذریعہ ہیں۔عوام عدل و انصاف کے لئے عدالتوں کا رخ کرنے کا قصد کرتے ہیں تو وہاں بھی انصاف بکتا ہوا نظرتا ہے۔عوام حیران و پریشان کھڑے اپنے مقدر کو کوستے ہیں اور پاکستان سے فرار کی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیتے ییں لیکن ہر پاکستانی بھی تو دیارِ غیر میں جا کر آباد نہیں ہو سکتا۔انھیں اپنے ہی وطن میں رہ کر ان سارے مسائل کو جھیلنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں امراضِ قلب اور شوگر ان کے اعصاب پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔
Pakistan
پاکستان میں ان امراض کی جس طرح بہتا ت ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ایک زمانہ تھا کہ لوگ ان امراض کے ناموں تک سے واقف نہیں ہوتے تھے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں پر ان دونوں موذی امراض نے اپنے قدم نہ جما رکھے ہوں۔خلفشار کی یہ کیفیت ہمارے قائدین کی غلط پالیسیوں اور ترجیحا ت کا نتیجہ ہے۔انھیں اپنی جیبیں بھرنے اور بینک بیلنس بڑھانے سے فرصت نہیں ہے جس کا فطری نتیجہ عوام کی موجودہ حالتِ زار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں پر لوگوں کا جمہوری نظام سے دل اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ جمہوریت انھیں مصائب و االام کے سوا کچھ بھی دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔جمہوریت کا تو پہلا سبق ہی دوسرے کے سامنے جھک جانا ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کے معنی دوسروں کو جھکانا اور قومی دولت کا لوٹنا قرار پایا ہے۔میں تو ٹیلیویژن پر لوگوں کو جمہوریت پر تین حرف بھیجتے ہوئے دیکھا ہے لیکن عوامی سطح پر جس طرح کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور جمہوریت کو جس طرح گالیاں دی جاتی ہیں میں انھیں ضبطِ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں۔
میں ذاتی طور پر جمہوریت نواز ہوں اور جمہوری جنگ میں اپنی ساری زندگی صرف کی ہے لیکن عوام کے دہکتے جذبات کو ٹھنڈا کرتے وقت بے بس ہو جاتا ہوں۔مجھے تو بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ پنپنے کا موقع نہ دیا گیا تو عین ممکن ہے کہ جمہوریت ایک دفعہ پھر شب خون کی نذر نہ ہو جائے۔کراچی میں رینجرز کے اختیارات کی جنگ اس شب خون کے لئے ایندھن فراہم کر سکتی ہے۔اس وقت حالت یہ ہے کہ سندھ حکومت اختیارات دینے سے گریزاں ہے جبکہ وفاقی حکومت ا ختیارات دینے پر مصر ہے۔ڈاکٹر عاصم حسین کی حراست اس سار ے واقعہ میں بنیادی عامل کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔
پی پی پی اپنے سابق وفاقی وزیر کی گرفتاری پر سخت غم و غصہ کا شکار ہے اور ڈاکٹر عاصم حسین کو رینجرز کی گرفت سے چھڑوانا چاہتی ہے لیکن رینجرز اس کے لئے تیار نہیں ہے۔وہ ہر گناہ گار کو اس کے جرموں کے حساب سے سزا دینے پر مصر ہے جبکہ پی پی پی ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے آ صف علی زردار ی کے ملوث ہونے سے خوفزدہ ہے لہذا وہ رینجرز کو اختیارات دینے سے گریزاں ہے تاکہ پی پی پی کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں نہ مل جائے۔ ڈاکٹر عاصم حسین آج کل جناح ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور رہائی کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں دیکھتے ہیں کہ کون فاتح ہو کر نکلتا ہے؟کیا قانون ایک دفعہ پھر بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے یا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔