تحریر: حفیظ خٹک دیا جلائے رکھنا ، روشنی ہوگی تاریکی ختم ہوگی اور سب کو اپنے راستے صاف دکھیں گے۔ انہیں آگے بڑھنے میں آسانی رہے گی یوں ان کا کام بھی آسا ن ہوجائیگا اور آپ کا کو بھی اطمینان قلب ہوگا۔ 85 منٹ نہیں ، گھنٹے و دن بھی نہیں ، ایام و ماہ بھی نہیں بلکہ سال تک دیا جلائے رکھنے ، اوروں کو راستہ دیکھانے ، سمجھانے ہدایات دینے کے عمل کو اپنی آخری سانس تک جاری رکھنے کے بعد وہ چراغ گل ہوگیا ۔ میعاد وقت زندگانی ختم ہوا ، آنکھ آواز کے ساتھ بند ہوئی اور یوں ہی ایک باب جو کہ طویل ہی نہیں طویل تر تھا لیکن ختم ہوا ، آپا کا چراغ گل ہوگیا۔
بظاہر ہی نہیں حقیقت میں بھی وہ چراغ تو گل ہوگیا لیکن یہ اس سے بڑھ کر حقیقت ہے کہ ان کے دیئوں سے اپنی راہ سفر کو روشن کرنے والے اپنے راستوں پر چلنے میں آگے بڑھنے والے ، اپنی زندگیوں کو منور کرنے والے درجنوں، سینکڑوں ، ہزاروں بلکہ لاکھوں موجود ہ بھی جو تاریخ بن جائینگے اور وہ بھی جو مستقبل میں حال اور پھر روشن ہونے کے بعد ماضی بن جائینگے سبھی آپا کے چراغ سے منور ہوتے اور ان کے منور کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ آپا تو چلی گئیں ان کی زندگی کا دیا تو بج گیا لیکن ان کے دیئے کی روشنی کبھی ختم نہ ہوگی۔
Life
آپا تو فانی ہوگئیں تاہم ان کا کام ان کے دیئے کی روشنی امر رہے گی۔ ملکی ، غیر ملکی اعزازات، صدارتی تمغات، ان کی خدمات کے عیوض کچھ بھی نہیں نہ انہیں صلہ دیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اپنے وقت کو تو خوب گذار دیا اور اس کے پاس وہ چلی گئیں جس کے پاس سب کو ہی جانا ہے وہی صلہ دینے والا ہے اور انہیں صلہ دے گا اس کے انعام ، اس کے اکرام کا ہم کیا کوئی تصور نہیں کر سکتا لیکن اس بات کا یقین ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ بجیا آپا کو جس طرح زندگی میں نوازتا رہا دنیا کے بعد دائمی دنیا و زندگی میں بھی نوازتا رہے گا۔
ہمت جمع کرنے کے باوجود ، دل کو سمجھانے اور انگلیوں کے ذریعے قلم کی مدد سے ان کا نام لکھنے پر تاحال مجبور نہیں کرپایا ہوں۔ جب وہ حیات تھیں جب ان سے ملتے اور ان کی گفتگو سنتے ، ان کی تحریریں دیکھتے اور پڑھتے تھے تب بھی ان کا نرم و نازک ، شفیق چہرہ سامنے رہتا تھا اور آج بھی ویسا ہی ہے۔ لیکن قلم و دل اس بات کو قبول کولینے کیلئے تاحال آمادہ نہیں کہ وہ اب نہیں رہیں۔ ۔۔۔۔
موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد بھی وہ اخلاق ، ان کا برتائو، ان کا علاج کرنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رہتا تھا جیسا عام افراد کے ساتھ رہا ۔ آپا جس طرح اپنے سگے بھائی انور مقصود کے ساتھ رہیں ، جس طرح اپنی بہنوں زہرہ نگار و زبیدہ کے ساتھ رہیں ویسے ہی وہ سب کے ساتھ رہیں ۔ آپا کیلئے لفظ افسانہ نگار کم ہے یہ لفظ دیگر افسانہ نگاروں کیلئے بھی استعمال کیا لیکن ان کیلئے لکھتے دل و دماغ کی کیفیت عجب ہے۔ لیکن لکھاری اس حال پر مجبور ہے کہ وہ اس آپا کیلئے اس لمحے کیلئے یہ لفظ استعمال کرئے ہاں آپا ایک افسانہ نگار تھیں ، ان کے افسانے رہیں ۔ آپا ایک ہنس مکھ، شفیق و نفیس خاتون تھیں ۔ ان کے ڈراموں میں خاندانوں کے میل ملاپ ، ملن و لگن ، بھائی چارگی و دیگر سلوک کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کا ہر ڈرامہ ناظرین کے دل میں اس انداز سے اترا کرتا تھا کہ وہ اپنی جگہ بناتا چلا جاتا تھا ایک قسط دیکھنے کے بعد دوسری اور بھر تیسری کا انتظار کرنا پڑتا تھا ۔
خوب خوب پذیرائی ان کے ہر ڈرامے و تحریر کو حاصل ہوجایا کرتی تھی۔ آپ ایک قد آور سماجی شخصیت تھیں ۔ بلا رنگ و نسل ، بلا غرض و غایت کے مخص انسانیت کے لئے ان کی خدمات بے پناہ رہیں ۔ مظلوموں کیلئے ان کی آواز بلند ہونے کے ساتھ ان کا ساتھ بھی جاری رہتا ۔ امریکہ میں برسوں میں قید ان ہی کی نہیں اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کو وہ تسلی دیا کرتی ان کے حوالے سے منعقدہ پروگراموں میں ترجیحی بنیادوں پر شریک ہوا کرتی ۔ اس شعبہ میں ان کا وہ مقام تھا جو ناقابل بیان ہے۔
Hospital
آپا طویل عرصے سے بیمار تھیں ، اپنے بیماری کے شب وروز میں بھی تقریبات میں پابندی وقت کے ساتھ شرکت کرتیں ۔ اپنا رویہ ، رکھ رکھائو اس دوران بھی ایسا رکھتیں کہ جس سے یہ گمان ہونے لگتا کہ انہیں تو انسانوں کی طرح ویسا ہی پیار اپنی بیماری سے بھی ہے۔ آپا سب کو سبھی کو اپنا بچہ ، اپنے بچے سمجھتیں۔ یہاں تک ان سے پہلی بار ملنے والے ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ برسوں کی شناسہ خاتون سے مل رہے ہیں ۔ ان کے اندر اپنائیت کا جذبہ اس قدر تھا کہ اس کو لکھ کر یہ لکھاری اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے اسی جذبے کے متعلق ایک شخصیت جن کا تعلق شعبہ صحت ہے اور آپا سے دوران علاج برسوں قبل آغاخان ہسپتال میں ان کی ملاقات آپا سے ہوئی ان کا یہ کہنا ہے کہ دوران علاج آپا بیماری میں شفق و شفیق ہوتیں ان کا لب لہجہ و برتائو ایسا ہوتا کہ ہمارا جی چاہتا کہ بس ان کے پاس ہی بیٹھ کر ان کی باتیں سنیں انہیں دیکھیں۔یہ جذبات صرف اس شعبہ زندگی کے افراد کے ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی والوں کے آپا کے متعلق یہی خیال تھا ۔آپا، ایک ادیب تھیں ، وہ اک لکھاری تھیں ، وہ شاعرہ تو نہیں لیکن ان کا ذوق شاعرانہ تھا ان کے ڈراموں میں بھی شاعر ی کے عنصر سمیت متعدد عناصر عیاں تھیں ۔
آپا نے پی ٹی وی کے ابتدائی دور میں بہترین ڈرامے لکھے ، یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ انہوں نے پی ٹی وی کو بلند مقام تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ قدر دانوں نے تو آپ کے خدمات کے عیوض تمغات دیکر اپنے دلوں کو سکون پہنچانے کی صلہ دینے کی کوشش کی لیکن ۔ آپا اپنی زندگی میں سیاست سے دور رہیں ، تمام تر زندگی انہوں نے خدمت کرتے کرتے گذاری۔ ان کی جانے کی خبر پر جہاں سیاستدانوں ، دیگر رہنمائوں اداکارائوں اور دیگر سب ہی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ دل سب کے سبھی کے ان کے جانے پر ان کے چراغ گل ہوجانے پر آبدیدہ ہوئے ، جذبات کی عکاسی ہوئی یہاں اس لمحے جذبات کی عکاسی ناقابل بیاں ہے ۔ اس کے لئے صرف یہ بات یہ جملہ ہی کہا اور لکھا جاسکتا ہے کہ ان کا پورا نام نہیں لکھا اور پڑھا جاسکتا۔ وہ آپا تھیں وہ آپا ہیں اور وہ آپا رہیں گی۔