تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی جنت نظیر وادی ہیلی فیکس (برطانیہ) کے چپے چپے پر قدرت نے دلکش سحر انگیز مناظر کا جال بچھایا ہوا تھا۔ ہم قدرت کی فیاضی کی داد دیتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے جس طرح انتہائی لذیذ اور شیریں مشروب کو انسان قطرہ قطرہ کرکے پیتا ہے اور انجوئے کرتا ہے اسی طرح ہم بھی قدرت کی سحرنگری کے سحر میں گم اپنی نظروں اور دماغوں کو روشن کرتے جا رہے تھے۔ اچانک بادلوں کی چلمن سے سورج نے تھوڑا سا چہرہ نکالا تو پوری وادی پر دھوپ چھائوں کا خوبصورت دلنشیں نقشہ بن گیا۔
پوری وادی میں میلوں دور تک سبز گھاس کا مخملی قالین بچھا ہوا تھا سبزے پر دھوپ چھائوں کی آنکھ مچولی جارہی تھی قدرت اپنے دلفریب نظاروں کے ساتھ چاروں طرف جلوہ گر تھی اور ہم قدرت کی جلوہ گری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اِسی دوران سڑک کے کنارے اِکا دکا ڈبل سٹوری گھر بھی نظر آ جاتے صاف چمکیلے شیشوں والی کھڑکیاں اور اِن کھڑکیوں پر سفید پردے مکینوں کے اعلی ذوق کا اظہار کر رہے تھے، انہی گھروں میں کبھی کوئی گورا یا گوری نظر آتے تو ان کی قسمت پر رشک آتا کہ ہم اور ہمارے جیسے تو چند لمحوں کے لیے وادی کے حسن سے فیض یاب ہونے کے لیے آتے ہیں لیکن یہ تو مستقل طور پر اِس جنت کا حصہ تھے، یقینا وہ لوگ تھے جو شہروں کی بھاگم بھاگ زندگی سے بے زار ہو کر یہاں آبسے ہوں گے یا فطرت پسند لوگوں نے اپنی زندگی یہاں گذار نے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
شہروں سے دور دراز علاقوں تک سڑکوں کا جال اور تمام سہولیات زندگی کی فراہمی سے واضح طور پر فلاحی اور ترقی یافتہ ریاست کے آثار نظر آرہے تھے۔پورے برطانیہ میں آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو تمام سہولیات اور بڑے شاپنگ سٹور ہر جگہ نظر آئیں گے اِس لیے شہروں کی طرف نقل مکانی نہ ہونے کے برابرہے جبکہ شہریوں کو تمام سہولتیں اپنے دیہات میں ہی دستیاب ہونگی تو وہ کیونکر شہروں کا رخ کریں گے۔
یہاں پر ریاست کی سہولتیں دیکھ کر مجھے مری کے پہاڑی علاقے میں رہنے والے مقامی لوگوں کی حالتِ زار یاد آگئی کہ جہاں سردیوں میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اکثریت گرم آبادیوں کا رخ کرتی ہے، مری کی حالت زار کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ برف باری میں پانی اور بجلی بند ہو جاتی ہے جو ہفتوں اور مہینوں تک نہیں آتی اگر کوہ مری اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں بھی جدید سہولتیں اور سڑکوں کا جال بچھا دیا جائے تو یقینا ہمارے قدرتی مناظر بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔جبکہ یہاں برطانیہ اور پورے یورپ میں شہروں اور دیہاتوں میں کچھ بھی فرق نہیں ہے۔
Halifax Landscapes
ہم ہیلی فیکس کے قدرتی سحر انگیز مناظر سے لطف اندوز ہوتے آگے بڑھ رہے تھے کہ ہمارے انتظار میں بیٹھے تین افراد کا فون آگیا جو ترکش ریسٹورانٹ میں پہنچ کر اب ہمارے انتظار کر رہے تھے اُن کے با ر بار فون اُن کی بے چینی اور پریشانی کااظہار کر رہے تھے، بارش اب تیز ہو گئی تھی لہذا ہم نے برق رفتاری سے گاڑی دوڑانا شروع کردی بارش اور دلکش مناظر نے ہمارے دلوں دماغوں کو جوش سے بھر دیا تھا خوبصورت ترین مناظر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نیم پہاڑی علاقے کی اونچائی سے اب ہم قدرے نیچے آرہے تھے اور پھر جیسے ہی سڑک قدرے سیدھی ہوئی گاڑی کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی اب ہم برق رفتاری سے ترکش ریسٹورانٹ کی طرف بھاگ رہے تھے اور پھر نور رانجھا میرے میزبان نے دور ایک خوبصورت عمارت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ ہماری منزل ہے ہماری تیز رفتاری کی وجہ سے دھندلی عمارت اب آہستہ آہستہ قریب اور واضح ہوتی چلی گئی اور پھر ہم قدرتی مناظر میں گھرِی ہوئی صاف شفاف بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکیوں پر مشتمل عمارت ترکش ریسٹورانٹ یا کیفے کی کار پارکنگ میں پہنچ کر رک گئے۔
بارش زوروں پر تھی ریسٹورانٹ میں رش نہ ہونے کے برابر تھا ہمارے انتظار کرنے والوں نے ہمیں فوری پہچان لیا ایک بندہ تیزی سے چھتری لیکر ہماری طرف بڑھا ہم چھتری کے سہارے بھیگتے ہوئے تیزی سے ریسٹورانٹ میں گھس گئے اور جا کر بڑی میز جوکھڑکی کے ساتھ تھی جہاں ہمارے میز بان پہلے سے بیٹھے تھے بیٹھ گئے، ہمارے میزبانوں نے پہلے سے ہی کافی کے برے بڑے گرما گرم مگ بنا کر رکھے ہوئے تھے جن سے مسحور کن خوشبو اور بھاپ اڑ رہی تھی انہوں نے فوری طور پر ہمارے ہاتھوں میں کافی کے مگ پکڑائے، میں نے فوری طور پر کافی کا بڑا گرم تلخ اورشیریں گھونٹ حلق میں اتارا اور سامنے بیٹھے تین ادھیڑ عمر افراد کی طرف متوجہ ہوا۔تینوں کی عمریں پچپن اور ساٹھ سال کے درمیان تھیں۔
ہم سے ملنے کی خوشی اور جوش اُن کے چہروں پر رقصاں تھا کافی کے دو چار گھونٹوں کے بعد اعصاب قدرے نارمل ہونا شروع ہوئے تو میں نے بغور اپنے میزبانوں کو دیکھا جو امید اور محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے، تعارفی کلمات کے دوران ہی گرما گرم کباب اور باقی لوازمات بھی آگئے جو لوگ لندن جا چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ برطانیہ میں لبنانی اور ترکش کھانوں کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اِن کھانوں کے ناموں سے ہم اکثر واقف نہیں ہو تے بس کھانا شروع کر دیتے ہیں، لہذا ہم نے بھی دن بھر آوارہ گردی کے بعدبھوک مٹانے کے لیے اِن گرما گرم لذیذ لوازمات پر حملہ کردیا اور کھانا شروع ہو گئے۔
Halifax England Hotels
کھانے کے دوران میں نے دو تین بار میزبانوں سے ملنے کی وجہ پوچھی لیکن اُنہوں نے بتانے سے گریز کیا میں سمجھ گیا جب کوئی فرد محفل میں گفتگو یا بتانے سے گریز کرے تو اَس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے مسئلے یا پریشانی کا شکار ہے جس کا اظہا ر وہ دوسروں کے سامنے نہیں کر سکتا یا بتانے والا اپنا مسئلہ یا راز کسی کے سامنے بتانا نہیں چاہتا، لہذا مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ اپنا مسئلہ سب کے سامنے نہیں بتائیں گے اِس لیے میں نے دوبارہ نہیں پوچھا اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کھانے سے فارغ ہونے پر اِن سے الگ الگ ملاقات کی جائے۔
تینوں جھوٹی اور مصنوعی مسکراہٹ چہروں پر سجائے باتیں کر رہے تھے جبکہ ان کے چہروں کی ویرانی اور اندرونی کرب کے واضح اثرات چہروں پر نمایاں تھے ان میں سے ایک شخص جو عمر میں اُن سے بڑا تھا نیم پاگل لگ رہا تھا کیونکہ سوکھ سوکھ کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا تھا وہ کبھی تو ہوش مندوں والی باتیں کرنے لگتا اور پھر اچانک اس کے اندر کا دکھ اور درد اس کے جسم پر حاوی ہو جاتا اس کا درد اس کی آنکھوں میں نمی بن کر تیرنے لگتا۔پھر وہ خود کو سنبھالتا اور نارمل بندوں کی طرح گفتگو شروع کردیتااُس کے چہرے کے تغیرات اُس کے شدید غم کی عکاسی کررہے تھے جب بھی وہ غم کے دریا میں غوطہ زن ہوتا تو باقی دونوں اُسے حوصلہ دیتے کہ اﷲ جلدی تمھارا مسئلہ حل کر دے گا، تو وہ کبھی یقین اور کبھی بے یقینی سے ہمارے چہروں کو دیکھتا اُس بوڑھے کمزورشخص کے چہرے پر غم اور خوشی کی آنکھ مچولی جاری تھی اُس کی حالت زار دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ وہ کسی شدید ذہنی جھٹکے یا غم سے گزرا ہے یا گزر رہا ہے اُس واقعے یا حادثے نے اُسے اندر تک اُدھیڑ کے رکھ دیا ہے۔
اُس حادثے کی شدت نے اُس سے زندگی کی حرارت اور خوشی چھین لی تھی اُس کے بے ربط گفتگو اور چہرے کی درمانگی مجھے کھائے جارہی تھی وہ بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا کہ میں کب کھانے کے عمل سے فارغ ہو جائوںتا کہ وہ مجھے اپنی بات سنا سکے میں بغور اُس کے غمزدہ چہرے اور جسمانی حرکات کو نوٹ کر رہا تھا۔اُس کا اندرونی کرب اور اضطراب اُس کی ہڈیوں تک سرایت کرچکا تھا غم اور ددر نے اُس کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا وہ کسی جان لیوا دکھ اور درد کا شکار تھا۔
درد غم کی شدت نے اُس کے ہوش و حواس چھین لیے تھے اور نیم پاگل ہو کر در بدر بھٹک رہا تھا مجھ سے اُس کی بے چینی اور اضطراب دیکھا نہیں جارہا تھا میں نے اُس کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا اُسے بازو سے پکڑا اور ریسٹورانٹ کے ایک گوشے میں لے جا کر بیٹھ گیا اور اُس کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے محبت امیز لہجے سے کہا جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اُس نے جو حرکت کی میں اُس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا اُس نے میرے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اوردھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956