تحریر : سید عارف سعید بخاری سینٹ ویلنٹائن ڈے (Saint Valentine’s Day) جسے ویلنٹائین ڈے (Valentine’s Day) اور سینٹ ویلنٹائن کی دعوت (Feast of Saint Valentine) بھی کہا جاتا ہے ایک خاص عالمی دن ہے جو ہمیشہ 14 فروری کو متعدد مغربی اور سیکولر ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر منایا جاتا ہے لیکن گذشتہ چند سالوں سے یہ دن مسلم ممالک خاص سے پاکستان میں پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس روز خاص طور سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔اور خوبصورت تحائف بھی اپنے چاہنے والوں کو پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”ویلنٹائن ڈے”کی اصلیت کیا ہے اور اس کی ابتدا کس طرح سے ہوئی ؟ اس دن کے حوالے سے کئی ایک روایات بیان کی جاتی ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک پائی جاتی ہے کہ یہ دن ”محبوبوں کے لئے خاص دن ”ہے۔ بعض لوگ اسے عاشقوں کے تہوار(Lover’s Fesitival) کا نام بھی دیتے ہیں ۔ بلاشبہ تہوارکسی بھی معاشرے کی ثقافت کے عکاس ہوتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے سراسر غیر اسلامی تہوار ہے کیونکہ یہ دن اس عیسائی راہب کی یاد میں منایا جاتا ہے جو بغیر شادی کئے مرد و عورت کے تعلقات کو جائز تصور کرتا تھا ۔جوکسی بے حیائی سے کم نہیں اور نہ ہی دنیا کے کسی مذہب میں ایسے فعل کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔
سینٹ ویلنٹائن ایک عیسائی راہب تھا۔اور” ویلنٹائن ڈے ”کے حوالے سے ایک واقعہ اس سے منسوب ہے۔”ویلنٹائن ڈے” کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہواتھا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد ازاںیہ تہوار سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کوبھی برقرار رکھا گیا۔گویا اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو” رفیق” یا ”رفیقہ حیات” کی تلاش میںہو۔17ویں صدی کی ایک پرامید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ 5 پتے ٹانکے۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔
The Story Of Valentine’s Day
” ویلنٹائن ڈے”سے متعلق کوئی مستند حوالہ موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان ضرور بیان کی جاتی ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری گذرا ہے جو ایک راہبہ (Nun) کی الفت کا اسیر ہوگیا تھا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن اسی عاشق یعنی ویلنٹائن نے اپنی محبوبہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ فروری کا ایک دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ ”صنفی ملاپ ”بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔
راہبہ نے اس پر یقین کیا اور دونوں جنون ِ عشق میں وہ سب کچھ کر گزرے۔جو رائج قوانین و ضوابط کی روشنی میں ”گناہ” تصور کیا جاتا تھا ۔ یوں کلیسا کی روایات کی دھجیاں اڑانے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن کو”شہید ِمحبت ”کے درجہ دے کراس کی یادمیں یہ دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ایسی خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ کے مترادف قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات بھی آئے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا ، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی ، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔
ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن ہی سہی ،اگر اس روز خاوند اپنی بیوی کو از راہِ محبت پھول پیش کرے یا بیوی اپنے سرتاج کے سامنے چند محبت آمیز کلمات کہہ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اس دن کے حوالے سے مختلف عقائد کے حامل افراد کی اپنی اپنی رائے ہے۔اسلام میں غیرمردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے ملنے اور اظہارمحبت کرنے کی ممانعت ہے ۔جبکہ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ کے مترادف قرار دیا۔
کچھ اسلامی ممالک میں اس دن کیخلاف مہم بھی چلائی جاتی ہے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔مذہبی حلقوں کی اپنی تمام تر توجہ اس دن کو غیر اسلامی ثابت کرنے میں مرکوز رہتی ہے لیکن پھر بھی ہماری نوجواں نسل ”یوم تجدید محبت ” کے طور پر یہ دن منا کر ہی دم لیتی ہے۔ اظہار محبت کو ئی جرم نہیں ، کسی کو پھول پیش کرنا بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسے تنقید کا نشانہ بنا یا جائے۔ ملک بھر میں اس دن کی آمد سے قبل ہی ”ویلنٹائن”کارڈ ، پھول اور دیگر قیمتی تحائف کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ بیشک ! اظہار محبت کیلئے الفاظ ساتھ نہ دیں تو ہمیں ایک دوسرے کو تحائف ضرور دینا چاہئے۔
Celebrating Valentine’s Day
ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ ویلنٹائین ڈے مغربی تہذیب کا ایک حصہ ہے لیکن آج بھی اکثریت ایسی ہے جو اس دن کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی۔ مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ویلنٹائن ڈے جنسی بے راہ روی میں ڈوبے عیسائی معاشرے کا ایک تہوار ہے لہذا اس دن کو منانا غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری نوجوان نسل نے محبت اور تفریح کے نام قومی وقار اور معیشت کو بھی غیروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور ہم اپنی مذہبی اقدار کو دوسرے مذاہب سے غالباً کم تر سمجھنے لگے ہیں۔ گویا ہم محبت کو بھی سمیٹ کر صرف ایک دن تک محدود کر دیا ہے۔ وہ لوگ جو اس دن کاصیحح تحفظ بھی نہیں کر پاتے اور اس کی بیک گراؤنڈ سے ہی ناآشنا ہیں۔ کھربوں ڈالر کی مقروض قوم کے افراد اسلامی شعائر کو پائمال کرتے ہوئے مغربی اقوام کے تہواروں پر اربوں روپیہ ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔
ہم نے سمجھ لیا ہے کہ شاہدیہ تہوار نہ منایا تو ہم خدانخواستہ ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ مغربی تہذیب کے دلدادانوجوان اس دن پھولوں کے گلدستے دینے میں مسرت محسوس کرتے ہیں مگر اپنی روایات کو یکسر بھول جاتے ہیں۔یہ دن گستاخ رسولۖ سے بھی منسوب ہے، ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہم نے محبتیں بانٹنے کیلئے بھی اسی دن کو منانا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغربی اقوام کے تہواروں پر بھاری رقوم ضائع کرنے سے گریز کریں۔ اظہار محبت کو ایک دن تک اور نہ ہی اسے عاشق و معشوق تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم جہاں اپنے چاہنے والوں کو اپنی محبت کا یقین دلائیں وہاں ہم آپس کی نفرتوں اور کدورتوں کو بھلا کر ایک دوجے سے محبت و اخوت کو فروغ دیں۔ تاکہ ہماری اس دھرتی پر امن کے پھول کھلیں اور یہ ملک ترقی و خوشحالی کی منزل کو پا سکے۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com