تحریر: عمران چنگیزی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان اور افواج پاکستان نے دنیا کو پر امن بنانے کیلئے جو تاریخ ساز و لازوال قربانیاں دی ہیں اور ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ سمیت مہذب و پر امن دنیا کا پاکستان اور اس کی فوج سے زیادہ مخلص دوست کوئی اور کسی بھی طور نہیں ہوسکتا گوامریکہ نے اس جنگ کیلئے پاکستان کی بڑے پیمانے پر امداد بھی کی ہے مگر یہ امداد ان نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں جو پاکستان نے دنیا کو پر امن بنانے کیلئے اٹھائے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ دنیا کے محفوظ مستقبل کیلئے قربانیاں دینے والی اس ریاست کو معاشی و دفاعی طور پر مستحکم و مضبوط ترین اور ناقابل تسخیر بنانے کیلئے اپنے تمام وسائل استعمال کرتااور افواج پاکستان کو ہرقسم حربی سہولیات و سائل اور جدید ترین ٹیکنالوجی و اسلحہ فراہم کرتا مگر امریکہ نے پاکستان کو معاشی اور دفاعی طور پر مستحکم ‘ مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانے کی بجائے محض معمولی امداد پر ہی اکتفا کیا اور تمام نوازشات کا رخ دنیا کے پر امن مستقبل کیلئے خطرات پیدا کرنے والے بھارت کی جانب رکھا جس کی وجہ سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور پڑوسی ممالک کو کمزور بناکر ان پر قبضے کی خواہش میں بھارت کی جانب سے دہشتگردوں کی معاونت سرپرستی خطے کے امن و مستقبل کیلئے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کیلئے بھی خطرہ بن رہی ہے۔
India and America
اسلئے اگر امریکہ حقیقی معنوں میں دنیا سے دہشتگردی کا خاتمہ کرکے امن قائم کرنے کا خواہاں ہے تو اسے پاکستان و افواج پاکستان کے کردار کو صرف سراہنے کی بجائے پاکستان اور افواج پاکستان کو معاشی و دفاعی طور پر مضبوط و مستحکم اور ناقابل تسخیر بنانے پر توجہ دینی ہوگی اور بھارت کے جارحانہ جذبات کے ساتھ پڑوسی ممالک میں دہشتگردوں کے بھارتی کردار کو بھی نکیل ڈال کر محدود کرنا ہوگا اور پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی جانب سے شروع کئے جانے والے آپریشن ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے پاکستان کو داخلی و خارجی دہشتگردوں سے پاک کرنے کیلئے پاکستان کی ہر طرح سے معاونت و امداد کے علاوہ افغانستان کو بھی پاکستان سے تعاون کا پابند بنانے اور بھارت کو دہشتگردوں کی سرپرستی سے باز رکھنے کیلئے تمام وسائل و اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔
مگر امریکی کردار اس کے برخلاف و متضاد دکھائی دے رہا ہے اور پاکستان و افواج پاکستان کی خدمات و قربانیوں کا اعتراف کرنے والا امریکہ بھارتی جارحیت و سازشوں کو لگام ڈالنے کی بجائے اس کے جھوٹے الزامات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کے ساتھ پاکستان پر اعتماد و یقین سے بھی عاری دکھائی دے رہا ہے اور اس کی جانب سے ”ڈو مور “ کی گردان کے ساتھ دہشتگردوں کیخلاف پاکستان کے عزم پر شک و حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے پاکستان سے بے وجہ اصرار اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھارتی ایماءپر پاکستان کو کمزور دیکھنے کا خواہشمند ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے F-16 طیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ”مروڑ “ کا شکار بھارتی لابی کاروں کی فرمائش پر امریکی سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین باب کروکر نے بھارتی عینک لگاکر پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی تصوراتی پناگاہوں کو تلاش کرلیا ہے جس کی بنیاد پر وہ امریکہ سے پاکستان کو F-16 طیاروںکی فراہمی رکوانے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں جو دراصل پاکستان کوامریکہ سے F-16 طیاروں کی فراہمی رکوانے کی بجائے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو ناکام اور دنیا کو پر امن بنانے کیخلاف سازش ہی کہلائی جاسکتی ہے ۔
US-F16-Aircrafts
کیونکہ امریکہ کی جانب سے F-16 طیارے نہیں دیئے گئے تو پاکستان یہ طیارے اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں خرید لے گا مگرامریکہ کی اس طوطا چشمی کے بعد پاکستان یقینا پاک امریکہ تعلقات پر نظر ثانی اور اپنی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کے ساتھ دوست و دشمن عالمی قوتوں کے نئے سرے سے انتخاب پر مجبور ہوگا۔ جس کے بعد پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب سے پاکستان کا مستقبل تو یقینا محفوظ ہوجائے گا مگر فرنٹ لائن اسٹیٹ کی اس جنگ سے علیحدگی کے نتیجے میں دنیا کو پر امن بنانے کا وہ امریکی خواب باطل ہوجائے گا جو امریکہ گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا کو دکھا کر نہ صرف اسے ڈرا رہا بلکہ چوہدری بن کر مال بھی کمارہا ہے اور ان سارے مضمرات کا ذمہ دار بھارتی خوشنودی کے حصول کیلئے حقائق فراموش کرنے والی امریکی و واشنگٹن انتظامیہ و پالیسی ساز ہوں گے۔