تحریر : احمد نثار کتابیں پڑھنے کا شوق کسے نہیں ہوتا؟ ہر کسی کو ہوتا ہے۔ جسے نہیں ہوتا وہ کئی علوم سے بے بحرہ رہ جاتا ہے۔ کتابیں انسان کے اچھے دوست ہیں۔
انہیں باتوں نے انسان کو پڑھنے کی طرف مائل کر رکھا ہے۔ مجھے بھی اسی روش نے کتابوں کی طرف کھینچا۔ دنیا کی کئی زبانوں کی کتابوں کو دیکھا، ان کتابوں میں تحاریر کو غور سے پڑھا۔ رسم الخط کی طرف تحقیقی نظریے سے دیکھا تو ذہن میں کئی سوال اٹھے، انہیں جواب دینے کی کوشش میں مطالع کو کچھ گہرائی تک لے گیا۔
رسم الخط کی شروعات کب ہوئی، انسان کب سے زبان کو ایجاد کر رکھا ہے؟ جب رسم الخط ابھی ایجاد نہیں گیا تھا تو انسان ابتدائی دور میں لکھنے پڑھنے کے طریقے کیسے اختیار کر رکھے تھے؟ ان سوالات کو سرسری طور پر جواب دیا جائے تو یوں ہے کہ ؛ اردو عربی اور فارسی کتابوں میں ایک حرف ایسا نظر آیا جو سیدھے کھڑا ہے۔ شکل اسکی کھڑی بالکل کھمبے جیسی۔ دیگر حروف کے اشکال کی بناوٹ میں بھی مداخلت کرتا ہے اور ان کی آوازی شکل دینے میں بھی مداخلت کرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ چلو آج اس سے بات ضرور کرلیتے ہیں، اور پوچھ بھی لیتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور یہ ہے بھی تو کیا ہے۔
اب اس سے بات کروں بھی تو کیسے؟ کہاں ملوں، کیسے ملوں، کیا بات کروں؟ اپنی ریڈنگ روم کا شیلف جس میں پرانی کتابیں بھری پڑی تھیں، ایک پرانی کتاباٹھائی، جس کی طباعت بیسویں صدی کی پہلی دسی کی تھی۔اتفاق سے وہ کتاب لغت تھی، کتاب کھولی، مقصدِ کتاب کے پہلے صفحہ پر ہی کھڑا نظر آیا۔ آخر میں نے گفتگو چھیڑ ہی دی۔
میرا سوال : جناب آپ کون ہیں،آپ کا نام کیا ہے؟ الف صاحب : مسکرکر جواب دیا ”میاں تم بڑے ہوشیار ہو، جانتے ہو کہ میں الف ہوں، میرا تعارف تو آپ کے استاد نے کیا ہوگا کہ میں الف ہوں ، اور پھر بھی سوال کررہے ہو؟ ”
میں: جھجکتے ہوئے کہا ) ” نہیں الف صاحب، ایسا نہیں کہ میں نہیں جانتا، جانتا ہوں مگر تھوڑا سا۔ اب آپ سے آپ کا مکمل تعارف ، حقیقت اور حیثیت کو جاننا چاہتا ہوں، اس لیے سوال کیا ”۔
Alif
الف صاحب : الف صاحب مسکرائے، اور کہنے لگے ” تاریخ میں ابجد اور رسم الخط کو تشکیل و ترتیب دینے والوں نے مجھے بڑے ہی غور فکر کے ساتھ مطالعہ کیا۔ مگر حال کے ٠٠٥ سالوں میں مجھے کچھ کم لوگ ایسے ملے جو میری حقیقت کو غور سے جاننا چاہا۔ سعدی نے بچپن ہی میں یہ کوشش کی تھی۔ ویسے مجھے آج کل کے اردو والوں سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے پاس کچھ مادہ و مغز ہوتو شکایت کروں! آج کل زبانوں کی تخلیق و ترویج پر تحقیقات کہاں؟ اردو والے تو ان معاملات میں کنگال کے برابر ہیں۔ جو بھی ماہرِ لسانیات ہیں، وہ تو انگریزی کے غلام بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوس یہ کہ اردو والے قواعد بھی نہیں جانتے۔ خیر میرے دل کے آبلے بے حس لوگوں کے سانے پھوڑنا میرا شیوہ نہیں، ویسے بے مروتوں کے مزاروں پہ فاتحہ پڑھنا بھی بے سود و باعیب ہے”۔
میں : میں نے روکتے ہوئے کہا ” قطع کلام قبلہ، ایسا نہیں ہے، اردو رسم الخط پر کام کرنے والے بہت سارے ہیں اور کام بھی بخوبی کر رہے ہیں”۔
الف صاحب : الیف صاحب نے درمیان میں ہی ٹوکتے ہوئے کہا ” قطع سوچ معاف کریں، سوچ بدلیں، یہ دھوکے بازی چھوڑیں، اردو سے کھلواڑ چھوڑیں۔ اردو کبھی علم و ادب کی زبان ہوا کرتی تھی، اب اس کو چند لوگوں کے پیٹ بھرنے کی مشین بنا رکھی ہے۔ اور آج اردو کو اینٹرٹائنمینٹ کی زبان بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیا کبھی لسانیا ت پر کام کیا ہے آپ لوگوں نے؟ آنتروپالوجی، مارفالوجی اور گرافالوجی پر کام کیا ہے؟ نہیں۔ یہ الفاظ تو اردو والوں کے لیے نئے ہیں بالکل نئے۔
Urdu
ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے پھر سے کہنے لگے۔ خیر اس روداد وفاتحہ خوانی کو ختم کرو، تم نے جو سوال کیا تھا اس کا جواب سن کر چلو”۔ پھر سے داستان نویسی کے اوراق پلٹنے لگے۔ دیکھو میاں آپ کی دلچسپی سے متاثر ہوکر بتا دیتا ہوں ورنہ اردو والے ڈاکٹروں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے، کیوں کہ وہ تحقیق کرتے ہیں مگر غیر ضروری عنوانات پر۔ جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ ہی دم۔ اور میرا تعارف مختصر طور پر سن لو؛ جان کاری حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے سوال و جواب کا طریقہ۔ تم سوال کرتے جائو میں جواب دیتا جائوں۔ تمہاری آسانی کے لیے موضوعات کے مطابق میں ہی بتاتا چلتا ہوں۔ جہاں جہاں تم کو مزید جانکاری چاہئے، وہاں سوال ضرور کرلینا۔میں اردو کا مدرس نہیں ہوں کہ سوالات سے گریز کروں۔ جتنے سوال چاہے پوچھ سکتے ہو۔ لو سنو ، یہ میرا تعارف ہے۔ میں الف ہوں۔
میری شکل کھڑی ہے یوں ‘ا’۔ اور میرا جنس مذکر ہے۔ میرا تلفظ الِف ہے ۔ اور میں ا ب ج د یعنی حرف تہجی کا پہلا حرف ہوں۔ میرا سوال: الف صاحب، آپ کا وجود کن کن زبانوں میں ہے؟ الف صاحب : ویسے میرا شکلی وجود ذیل کی زبانوں میں ہے۔ اور آوازی یا سوتی وجود تو دنیا کی ہر زبان میں ہے۔ سیمیٹک زبانوں میں خواہ وہ پروٹو سیمیٹک ہو کہ سینٹرل سیمیٹک زبانیں، مثلا اکدی،فینیشین، یوگریٹک، ارامی، ابرانی، ارامائک، عربی زبانیں، اور فارسی، ارود، کشمیری، سندھی، اویغور، چغتائی، ترکی، داری و دیگر زبانوں کے ابجد کا پہلا حروف ہوں۔
مختصرا یوں سمجھو کہ مجھے عربی زبان کے رسم الخط سے لیا گیا ہے۔ اردو میں اعراب اور حرفِ علت کے ساتھ مل کر دس آوازیں پیدا کرتا ہوں۔ آ، ا، اِ، ا، او، او ، او ، اے، اے، ای۔
میرا سوال: آپ کے کیا معنی ہیں؟ الف صاحب : میرے نام یعنی الف کے معنی کئی لوگ ‘دلکش’ کے لیتے ہیں۔کبھی ‘ محبت کرنا’ کے بھی لیتے ہیں مگر میرا تلفظ آلف کرلیتے ہیں۔ میرا سوال :آپ کے علامتی معنی کیا ہیں؟ الف صاحب:میرے علامتی معنی یہ ہیں؛ واحد، اکیلا، مجرد، راست، دلیر ، بہادر وغیرہ۔ میرا سوال :ریاضیات میں آپ کی کیا حقیقت ہے؟ الف صاحب:علمِ حساب میں ایک کے ہندسے کی یہ شکل والا ہوں۔ ابجد میںمیری عدد ایک قرار دی گئی ہے۔ میرا سوال:ارود لسانیات میں آپ کی کیا حقیقت ہے ذرا بتائیے؟ الف صاحب:یہ سوال اچھا ہے تمہارا۔ بعض وقت کثرتِ مبالغہ ظاہر کرتاہوں۔ جیسے مارامار۔ دوڑا دوڑ۔ کبھی امر کے آخر میں لانے سے حاصل مصدر بناتاہوں۔ جیسے رگڑ سے رگڑا، کبھی تصغیر کے واسطے آتا ہوں۔ جیسے ٹٹو سے ٹٹوا۔ کبھی بڑاپن ظاہر کرتا ہوں، جیسے گھنٹا، مٹکا، ٹوکرا۔ عام طور پر مذکر الفاظ کے آخر میں آتا ہوں۔ کبھی دو کلموں کے بیچ میں نسبت کے واسطے آتا ہوں جیسے، موسلا دھار ۔ فعل لازم میں آکر اسے متعدی کردیتا ہوں۔ جیسے کرنا سے کرانا۔ عدد ترتیبی بنانے کے لیے اعداد کے آخر میں آتا ہوں۔ جیسے پہلا دوسرا میرا سوال:ذرا یہ بھی بتاتے چلئے کہ آپ دیوناگری یا ناگری رسم الخط میں اپنی پہچان یا آواز کی پہچان کیا رکھت ہیں؟
الف کا جواب : دویو ناگری رسم الخط میں مذکورہ بالا دس آوازوں کے کے لیے علیحدہ حروف مقرر کئے گئے ہیں۔ ا ۔ پہلا، آ۔ دوسرا، اِ۔ تیسرا۔ ای چوتھا۔ ا۔ پانچواں۔ او چھٹا۔ اے گیارھواں۔ اے بارھواں ۔ او ۔ تیرھواں۔ او چودھواں حرف ہے۔
ہندی میں الفاظ کے اول بالفتح لانے سے نفی کے معنی پیدا کرتا ہوں، جیسے اہِنسا۔ اٹل۔ ٭ کبھی آخر میں آکر صفت مشبہ پیدا کرتا ہے۔ جیسے بھوکا۔ پیاسا۔ ٭ جنتری اور علم نجوم میں ایتوار اور برج حمل کو ظاہر کرتا ہوں۔ ٭ وشنو جی کا نام بھی ہوں۔ میرا سوال:اردو عربی قواعد میں آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ الف صاحب: بہت اچھے میاں، تمہارے سوالات کا دائرہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کافی دلچسپ آدمی ہو۔ عربی میں اسما کو واحد سے جمع بنا دیتا ہوں۔ جیسے مجلس سے مجالس۔ صنم سے اصنام۔ شہید سے شہدا حرفی مادوں میں فعل سے فاعل بنا دیتا ہوں۔ جیسے خلق سے خالق اسم فاعل یا صفت مشبہ کے اول آکر مبالغہ کے معنی پیدا کرتا ہوں۔ جیسے کامل سے اکمل فاعل کے فعل میں مبالغہ پیدا کرتا ہوں۔ جیسے جبر سے جبار۔ قہر سے قہار
میرا سوال : الف صاحب، آپ کی تنوینی شکل کیا ہوتی ہے؟ الف صاحب : الف تنوین ہے جیسے، آنا فانا میرا سوال : الف صاحب، کچھ اور دلچسپ باتیں بتائیے۔ الف صاحب: اچھا یہ بھی سنو۔ بعض عربی اسما میں بشکل ‘و’ یا ‘ ی’ لکھا جاتا ہے۔ مگر الف پڑھا جاتا ہے۔ اور نصف الف استعمال ہوتا ہے جیسے عیسی۔ زکو فارسی میں ندا کے لیے آتاہوں۔ جیسے ناصحا افراط کے لیے جیسے بسا ٭ حسرت اور افسوس کے لیے ، وا حسرتا بعض جگہ زائد آتا ہوں۔ جیسے پیرہن سے پیراہن، گر سے اگر انحصار و استیعاب کے لئے آتا ہوں۔ جیسے سراسر۔ لبالب سنسکرت میں اسما مذکر کے آخر میں آکر مونث بناتا ہوں۔ جیسے کرشن کرشنا، بال سے بالا۔ میرا سوال : بہت خوب الف صاحب۔ ذرا یہ بھی بتاتے چلئے کہ الف ممدوہ کیا ہے؟ الف صاحب: (ہنس کر)، موقع کا اچھا فائدہ اٹھا رہے ہو برخوردار۔ لو سنو۔ ٭ الف ممدوہ کی شکل ‘آ’ ہے۔ الف لکھو، اور اس کے اوپر ایک ایسی خط لکھو جو ہوا کے جھونکے کی طرح ہو۔
٭ الف ممدوہ کا جنس بھی مذکر ہے۔ ٭ الف ممدوہ اردو میں علیحدہ حرف شمار نہیں ہوتا، مگر دیوناگری رسم الخط کا حرف اور سور ہے۔
٭ سنسکرت میں مصادر کے پہلے آکر نزدیکی کے معنی پیدا کرتا ہوں۔ کچھ الفاظ کے معنی دیکھ لو تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
آکار (سنسکرت لفظ ۔مذکر ہے)حرف آ کا نام۔شکل و صورت، وضح نقشہ۔ ہیئت نقش و نگار۔ مجسمہ، مشابہت، نشان۔ علامت۔ اشارہ
آکارانت (س۔مذکر) آپر ختم ہونے والا حرف آ(ہندی۔امر) آنا کا ، بازی گر۔ غائِب چیزوں کو منگانے کے لیے یہ کلمہ کہتے ہیں۔ گویے گانے سے پیشتر سس ملانے کے لئے میری یہ آواز نکالتے ہیں۔ سم جتانے کی آواز ہے۔
٭ کبوتروں کو بلانے کی آواز ہے۔ ٭ مصادر کے پہلے آکر معنوں میں زور اور تاکید پیدا کرتا ہے۔ ٭ آ آ: مرغیوں کو دانہ دینے کے لئے بلانے کی آواز ہے۔
میاں اور کچھ سوالات ہیں؟ یا سوالات ختم کروگے؟ تم اتنے سوالات تو کرلیے ، ساتھ ساتھ ایسی گفت و شنید سننے کے مشتاق ادیبوں کو بھی بھی پیدا کرو۔
میرا سوال: جی الف صاحب بالکل ایسا ہی کروں گا۔ مگر آخر میں اس سوال کا بھی جواب دیتے چلئے۔ آپ کا نام الِف ہے ، ذرا ‘الیف’ کا بھی تعارف کرتے چلیں۔ الف صاحب:(ہنستے ہوئے) کیا میری کھِنچائی کر رہے ہو! میں: نہیں جناب، بھلا میں آپ کی کھنچائی کیوں کروں۔ الف صاحب : نہیں، تم کھنچائی نہیں کر رہے ہو، بلکہ لفظِ الف میں ل کی زیر کو کھینچ کر ‘الیف ‘ بنا ہے، اس کھنچائی کی بات کر رہا ہوں۔ میں: (لمبی سانس لیتا ہوا، مسکرا کر) جی اچھا۔
الف صاحب : تو سنو! اکثر و بیشتر یہ دونوں الفاظ میری ہی ذات کے لیے بنے ہیں۔ ہاں مگر چند اوقات پر لفظِ الیف مختلف معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے؛ ٭ مشہور کتاب ‘ الف لیلہ لیلہ ‘۔ اس میں الف کے معنی ہزار کے ہیں۔ جیسے آپ لوگ انگریزی میں ملینیم (Milennium)لکھتے ہو، ویسے ہی یہ الف ہے۔ ٭ ٹھیک اسی معنی میں ایک مجددِ اسلام کے نام سے بھی معنون کیا ہے الف ثانی۔ یعنی اسلامی تقویم ہجری سال شروع ہونے کے ایک ہزار سال بعد ایک مجدد اسلام نے اپنی تحریک شروع کی۔ اور اس دور کو مد نظر رکھ کر ان کو الف ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ ٭ بہت سارے لوگوں نے میرے نام سے اپنی کمپنیوں کے ناموں کو موسوم کیا، اپنے ڈرامے، فلم، پروگرامز، بینڈ و دیگر میڈیا کے متعلق نام بھی رکھے۔ ٭ چند علاقوں میں لڑکیوں کے نام الفی سجنا رکھتے ہیں، اس نام سے الف یا الیف کا کوئی تعلق نہیں۔
٭ اردو کی بولیوں میں لفظ ‘الف ناد کی سوئی’ مستعمل ہے، جس کے معنی الیف جیسی سوئی جسے آپ انگریزی میں Ball Pin کے نام سے جانتے ہیں۔ اور کچھ سوال؟ میں: شکریہ جناب آپ نے بڑی ہی دلچسپ باتیں بتائیں۔ دوبارہ آپ کا شکریہ۔۔۔ الف صاحب : کوئی بات نہیں۔ بس تم سے یہ کہوں گا کہ تمہارے یہ سوالات کا سلسلہ دیگر حروفوں سے بھی جاری رکھو۔ ہوسکتا ہے کچھ دلچسپ معلوماتی معاملات ابھر کر سامنے آئیںگے۔
Ahmed Nisar
تحریر : احمد نثار Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in