تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی جنت نظیر سحر انگیز قدرتی مناظر سے لبریز وادی ہیلی فیکس (برطانیہ) کا ترکش ریسٹورانٹ 60 سالہ بوڑھے پاکستانی کی ہچکیوں، آنسوئوں اور آہ و بکا سے ماتم کدہ بنا ہوا تھا، ہم سارا دن وادی کے دلفریب دلکش اور سحر انگیز مناظر سے اچھی طرح سے لطف اندوز ہو کر اِس ریسٹورانٹ میں آئے تھے جہاں تین ادھیڑ عمر پاکستانی ہمارا انتظار کر رہے تھے ہم سارا دن برطانیہ کے قدرتی مناظر کے سحر میں ڈوبے رہے اور اب یہاں قدرت ہمیں برطانیہ کا تاریک چہرہ دکھانے لائی تھی کرہ ارض پر بسنے والے ہر شخص کی یہ کوشش اور شدید ترین خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار ضرور دیکھے، اِسی جنون کے تحت پوری دنیا کے لوگ ساری عمر برطانیہ آنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور جو یہاں آجاتے ہیں مزدوری اور سیٹلمنٹ میں ایسا مصروف ہوتے ہیںکہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بڑھاپے میں داخل ہوئے اور کب اولاد جوان ہوئی اور پھر یہیں سے زندگی کی تلخ حقیقت کا آغاز ہوتا ہے۔
بوڑھا پاکستانی میرے سامنے زار و قطار رو رہا تھا اور مجھ سے مدد مانگ رہا تھا، غم کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا اُسکی گفتگو بھی بے ربط تھی اور مجھے بلکل بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے اور میں اُس کی کیا مدد کرسکتا ہوں، وہ مجھ جیسے گناہ گار کو مسیحا سمجھ کر مدد مانگ رہا تھا۔ اِسی دوران اُس کا ساتھی اُٹھ کر اُس کے پاس آیا اور دلاسا دیا پھر میرے کان میں آکر کہا جناب اِس بچارے کی نوجوان بیٹی کسی غیر مسلم کے ساتھ بھاگ گئی ہے اِس نے کئی بار کوشش کی اُسے گھر لانے کی سمجھانے کی لیکن اِس کی بیٹی نے اِس کی ایک نہ سنی، اُس کو گھر سے گئے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اُس نے پولیس میں اپنے باپ کی شکایت کر دی ہے کہ مجھے اپنے باپ سے جان کا خطرہ ہے اِس نے دو بار جانے اور ملنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے اِس کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیا جب اِس پر جانے کی پابندیاں لگ گئیں تو اس نے بابوں نام نہاد عاملوں کے پاس جانا شروع کر دیا جو کماتا بیچارہ عاملوں اور نجومیوں کو دے دیتا، بہت سارے عاملوں نے اِس کو یہ کہا کہ تم پر اور تمھاری بیٹی پر جادو ہے اس جادو کی وجہ سے تمھاری بیٹی نہیں آرہی اب یہ جہاں بھی کسی بابے نجومی کا سنتا ہے اُس کے پاس اپنے جادو کا علاج کرانے جاتا ہے، اِسی سلسلے میں یہ آپ کے پاس آیا ہے۔
Electronic Device Bracelet
پولیس کی وجہ سے یہ ایک سال سے اپنی بیٹی سے ملا نہیں یہ بے چا رہ چاہتا ہے کہ ایک بار اپنی لاڈلی بیٹی سے مل لے تو شاید اُس کو ترس آجائے اب یہ اپنی بیٹی کی تمام آزادیاں اور شرطیں بھی ماننے کو تیار ہے لیکن یہ اپنی بیٹی تک جا نہیں سکتا، آپ اِس کو بیٹی کے پاس لے جائیں پو چھا تو بتایا گیا کہ اِس کے پائوں میں Tag (کڑا) لگا ہوا ہے یہ جیسے ہی اپنی بیٹی کے علاقے میں جاتا ہے تو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ قارئین کی اکثریت Tag یا کڑے سے واقف نہیں ہوگی برطانیہ میں ہر چوتھے یا پانچویں پاکستانی کی ٹانگ میں گورنمنٹ نے کڑا ڈالا ہوتا ہے یہ ایک الیکٹرانک ڈیوائس ہے جس کا دوسرا حصہ پولیس اسٹیشن میں ہوتا ہے، اب یہ مجرم کے پائوں میں ڈالا جاتا ہے جس کا رابطہ پولیس اسٹیشن میں ہو تا ہے جیسے ہی کڑے والا فرد یا مجرم اُس علاقے میں داخل ہو تا ہے تو پولیس اسٹیشن میں موجود باکس چیخنے لگتا ہے تو پولیس کو پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں مجرم فلاں علاقے میں داخل ہو گیا، بعض مجرموں کو پولیس گھر تک محدود کر دیتی ہے اگر کوئی بھولے سے بھی گھر کے باہر پائوں رکھتا ہے تو پولیس فوری طور پر آکر اُسے لے جاتی ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنی بیٹیوں اور بیویوں کی وجہ سے اِس ظلم اور پابندی کا شکار ہے، بہت ساری بیویوں نے اپنے مظلوم خاوندوں کے پائوں میں یہ کڑے ڈلوائے ہوئے ہیں باپ یا خاوند اگر بھول کر کبھی اپنی بیوی بچوں کے پاس چلا جائے تو پولیس آکر پکڑ لیتی ہے، مجھے بہت سارے پاکستانی ملے جن کے پائوںمیں کڑے پڑے تھے اُن پر مختلف پابندیاں عائد تھیں مثلا کوئی کہتا سر میں نے رات 8 بجے تک ہر صورت میں گھر جانا ہے میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اُس کے پائوں میں کڑا ہے اگر میں8 بجے تک گھر نہ گیا تو پولیس آکر لے جائے گی کچھ ایسے پاکستانی بھی ملے جن کے پائوں میں پورے برطانیہ کا کڑا تھا یعنی وہ پورے ملک میں آزادی سے گھوم سکتے تھے لیکن جیسے ہی ملک سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو ایئرپورٹ یا ٹرین میں جیسے ہی ملک چھوڑنے یا بھاگنے کی کوشش کریں گے تو پولیس آکر جیل بند کر دیتی ہے۔جس کوکڑا لگا ہو تا ہے وہ دوسروں سے چھپاتا ہے مجھے دو سگے بھائی ملے جن کو کڑے لگے ہوئے تھے لیکن دونوں ایک دوسرے کے کڑے سے بے خبر تھے بہت سارے پاکستانیوں کی لڑکیاں گھر چھوڑ کر نوجوانوں کے پاس جو زیادہ تر غیر مسلم ہوتے ہیں چلی جاتی ہیں، سگے بھائی تک نہیں بتاتے کہ اُس کی بیٹی گھر چھوڑ کر جاچکی ہے تقریباً سارے پاکستانی اپنا مکان اپنے نام نہیں رکھتے۔
Sad Father
کیونکہ طلاق کی صورت میں آدھا مکان بیوی کو مل جاتا ہے پولیس ہمیشہ بیوی کا ساتھ دیتی ہے مجھے کئی پاکستانی خاوند ملے جن کی بیویوں نے انہیں نوکر بنا کر رکھا ہوا تھا بعض بیویاں باقاعدہ اپنے خاوندوں کو مارتی تھیں اور بار بار کہتی تھیں کہ مجھے طلاق دو بے چارے خاوند ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ورنہ جائیداد سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے اور پائوں میں کڑا بھی لگ جائے گا۔ برطانیہ کے باپ اور خاوند ذلت اور مجبوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، میرے سامنے بوڑھا باپ تھوڑا سا نارمل ہوا تو اُس نے بے ربط گفتگو سے مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ میری بیٹی بہت اچھی ہے وہ بچپن سے بہت اچھی تھی اُس نے کبھی مجھے تنگ نہیں کیا لیکن بلوغت کے بعد جوانی میں اُس پر میرے رشتہ داروں نے جادو کر دیا ہے اُن کے جادو کی وجہ سے اُس کی دوستی ہندو لڑکے سے ہوگئی جب میں نے اُس کو سمجھانے کی کوشش کی تو اُس نے باپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا، بار بار سمجھانے پر بھی جب بیٹی نے باپ کی بات نہ مانی تو نوبت لڑائی جھگڑے پر آگئی۔
لیکن برطانیہ کا مادر پدر آزاد ماحول جہاں چھٹی ساتویں جماعت سے ہی بچوں کو جنسی تعلیم اور طریقے سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ بچوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر والدین کسی قسم کی سختی یا مارنے کی غلطی کریں تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دیں، پولیس آکر والدین کو لے جائے گی یا نوجوان بچوں کولے جائے گی بوڑھا باپ بار بار مجھے اپنی بیٹی کی تصویر دکھا رہا تھا کہ میں اُس کو کوئی دم کروں اُس کا جادو اُتاردوں تاکہ بیٹی واپس آجائے باپ کی شفقت اتنی زیادہ تھی کہ وہ گھر سے بھاگ جانے والی بیٹی کو بھی ابھی تک قصور وار ماننے کو تیار نہیں تھا۔کاش برطانیہ اور پاکستان کی بیٹیاں والدین کی محبت اور شفقت کی شدت کو محسوس کر سکیں کہ والدین یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اُن کی بیٹی اتنا گھنا ئونا ظلم کر سکتی ہے ہر باپ اور ماں یہی سمجھتے ہیں کہ اُن کی بیٹی دنیا کی سب سے نیک بیٹی ہے اِس کو کسی بھی غلط بات کا بلکل پتہ نہیں اور پھر جب یہ اجڑے ہوئے باپ غم کا پہاڑ سرپر لادے میرے سامنے آکر التجا ئیں کرتے ہیں تو قسم سے میرا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔
گھر سے بھاگنے والی بچیاں بلکل بھی دکھ اور زخم سے واقف نہیں ہوتیں جو یہ اپنے والدین کو دے جاتی ہیں والدین بہن بھائی کس طرح رشتہ داروں اور اہل محلہ سے سر چھپاتے ہیں یہ جن پر بیتتی ہے وہی جانتے ہیں، یہ بیٹیاں والدین کو زندہ درگور کرکے آرام سے چلی جاتی ہیں اور والدین بہن بھائیوں کو معاشرے اور طعنوںکے جہنم میں جلنے کے لیے چھوڑ جاتی ہیں۔بوڑھے باپ کے بعد دوسرا پاکستانی الگ لے جا کر ملا تو اُس کی بیٹی بھی گھر سے ایک Message کر کے بھاگ گئی تھی Sorry Dad I am going وہ بے چارہ بار بار مجھے اپنی بیٹی کا میسج دکھا رہا تھا کہ وہ سوری کیسے کر گئی ہے پروفیسر صاحب وہ کب آئے گی آجائے گی نہ اور پھر مجھے شدید ترین جھٹکا اُس وقت لگا تھا جب تیسرے پاکستانی نے بھی یہی بات بتائی کہ اُس کی بیٹی بھی گھر سے چلی گئی ہے، جب اِن دونوں کو پتہ چلا کہ پہلا پاکستانی بیٹی کے غم میں پاگل ہو چکا ہے تو یہ اُس کے پاس آگئے میں حیرت اور بے بسی کی تصویر بنا اُن کو دیکھ رہا تھا پھر میں نے فیصلہ کیا کہ بوڑھے باپ کی بیٹی کو واپس لانے کی کوشش کی جائے۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956