تحریر : شکیلہ سبحان شیخ آج کا مسلمان بھول گیا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے ایسے یاد ہے تو صرف یہ کہ وہ ایک سندھی، پنجابی ،پھٹان، بلوچی، مہاجر ہے یا پھر وہ کس مسلک سے تعلق ر کھتا ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بہتر اورا علیٰ سمجھتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے قوم اور قبائل بنائے اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ” ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تمہاری آپس میں پہچان ہو جائے یا تم پہچانے جائو گے”اسلامی نقطئہ نظر سے جس قوم پرستی کو بت کہا گیا ہے وہ اسی قوم پر ستی کو کہتے ہیں جو قوم خود کو سب سے افضل قوم تصور کرے جبکہ دوسرے اقوام کو کمتر جانے یقیناً یہ قابل مذمت ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، اب لوگ جب کسی سے پہلی بار ملتے ہیں تو پہلا سوال یہ ہو تا جناب آپ کو ن سے خاندان سے تعلق رکھتے ہو یا کس قوم سے، ہمارے ذات پات کے نظام میں بعض ذاتوں کو اعلیٰ اور بعض کو ادنیٰ سمجھا جاتا ہے جو ان کی چھوٹی اور گھٹیا سوچ کی عکاسی کرتا ہے ہمارے ہاں بہت سے لوگ دوسری ذات میں شادی کر نا پسند نہیں کر تے اور اس کے حق میں اپنی ناقابل ِعمل منطق بھی پیش کرتے ہیں بعض جبکہ کچھ حضرات اپنے بیٹوں کی شادیاں تو دوسری ذاتوں میںکر دیتے ہیں لیکن بیٹیوں کی شادیاں صرف اپنی ہی ذات میں کر تے ہیں۔
قوم پرستی میں لوگ اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوتاہے بلکہ بغیر کسی خوف کہ ایک دوسرے کو قتل بھی کر رہا ہے ،افسو س کی بات تو یہ ہے کہ آج مسلمان کو کو ئی غیرمسلم نہیں اپنے مسلما ن ہی مار رہے ہیں ،قوم پرستی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ نظریہ کفر ہے بلکل ابو جہل کے کفرکی طرح،قوم پرست بہت سخت دل ہو تے ہیں یہ لوگ جب گفتگو کر تے ہیں تو سوائے دوسری قوم پر طنز کر نے کے ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ، یہ قوم پرستی کے سستے نعرے کی بدولت کامیابی حاصل کر تے ہیں یہ سب سے زیادہ میرٹ کا قتل کر تے ہیں جس ادارے میں ہو تے ہیں اس کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، آج کل ہر شعبہ میں تعصب ہے ،ہر ادارے میں کام کر نے والوں کی کو شش ہو تی ہے کہ اُنکے ادارے میں صرف ان کی قوم کے لوگ کام کر یں اگر کو ئی اور اُنکے ادارے میں آ جا ئے تو وہ پوری کوشش کر کے اُنکو نکال دیتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی اچھی صلاحیتوں کے مالک ہوں۔
اس کے برعکس ا پنی قوم کے لو گوں کو ہر شعبے میں آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں چاہئے اُن میں صلاحیتیں ہوں یا نہ ہوں،اس طر ح کے کاموں سے ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت پیدا ہو تی ہے اور یہ نفرتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں یہ قوم پرست بہت چالاکی سے اپنی قوم کو دوسری قوم سے ڈراتے ہیںاور موقف یہ اختیار کرتے ہیںکہ اگر تم فلاں قوم سے نہ لڑ ے تو وہ تمہارے حقوق غضب کر لیں گے اور تم ریڈانڈین بن جائو گے ، میں جب یہ سب باتیں سنتی ہوں اور ان کے ماضی پر ایک نظر دوڑاتی ہوں تو صرف زبانی جمع خرچ کے کچھ نظر نہیں آتا ،انھوں نے حقوق کے نام پر صرف سادہ لوح اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام کیا اور کچھ نہیں ،یہ سب کیا ہے ؟ہمارادین تو دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی عزت دیتا اُن سے بھی محبت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے تو پھر ہم مسلمان قوم پر ستی اور تعصب میں آخر کیوں مبتلاہیں۔
Muslims
بحیثیت مسلمان سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ! کیا مسلمانوں کے ہاں یہ غرو ر خود ان کے دین نے پیدا کیا ہے یا یہ کہیں اور سے آیا ہے جب ہم اس موضوع پر قرآن کا جا ئزہ لیتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے ، تر جمہ ”اے انسا نوں !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمیں ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا (اس کے بعد)ان دونوں کی نسل سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں پھیلا دیں”(النسائ) ،اللہ کے رسول ۖ اپنے مشہور خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فر مایا ”تمام لو گ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔اے لو گو! سنو تمہا را رب ایک ہے ،کسی عربی کو عجمی پر کو ئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کو ئی فضلیت ۔قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات ،رنگ ،نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیا د نہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پر ہیز گاری کو ہی فضلیت کا معیار قرار دیتا ہے اور قوم پر ستی کی بنیاد پر ہو نے والے اختلا فات کو ختم کر تا ہے۔
ہما را دین ہمیں ایک قوم پر ست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے ۔اگر ہم اپنے دین سے صحیح معنوں میں محبت کر تے ہیں تو ہمیں دین کی تعلیمات کو سمجھنا ہوگا،، لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ قوم پرستوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہیں اب بھلاان پر دین کی باتیں کیا اثر کریں گی لیکن عوام تو خدا راہ ہوش کے ناخن لے ، مسلمانوں کی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب وہ ہر قسم کے تعصبات اورمنافقت کو اپنے دلوں سے نکال دیں، دین اسلام اپنے ما ننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہو نے سے بچا تا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مر صوص یعنی سیسہ پلائی دیوار بننے کی تلقین کر تا ہے ،ہمارا دین ہمیں ایک قوم پر ست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ تو کسی کو اپنے آبائو اجدا د کے نیک اعمال کے سبب جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے برے اعمال کے سبب کوئی سزادی جائے گی ہر انسان اپنے اعمال سے ہی جزا اور سزا کا حق دار ہو گا۔
اُس وقت کو ئی سندھی ،بلوچی ،پٹھا ن ،پنجابی اور نہ مہا جر ہو گا، اس وقت و ہ صرف ایک انسان ہو گا اُس وقت نہ یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس خا ندان یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ،انسان صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اپنے عمال لے کر حا ضر ہو گا ،پھر ہم کیوں اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں؟؟آج یہ وجہ ہے کہ مسلما ن تباہی اور بر بادی کی طرف گامزن ہے جب تک ہم صرف ایک مسلمان نہیں بنیں گے تب تک ہم نفرتوں میں گھرے رہیں گے، ضرورت اس امر کو سمجھنے کی کہ ہمیں ہجوم سے نکل کر ایک قوم اور مسلمان بننا ہیں ،جب مسلمان قوم بنے کے بجائے ایک اُمت بنے گی توان کے غلبے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے !اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔