تحریر : عفت انسان کا خمیر مادی خواہشات سے اٹھا ہے۔ اس کی گھٹی میں کئی خواہشات کے پیمانے بھر بھر کے انڈیلے گئے اس میں زندگی کی خواہش ،مال و دولت کی خواہش ،اولاد کی خواہش، عزت، شہرت،آرام و آسائشات کی طلب غرض ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں جو اسے زندہ رکھتی ہیں ۔خواہشات کی موت اس کی موت ہوتی ہے ۔خواہشات ایک ایسا زہر ِہلاہل ہیں جسے ہم ساری زندگی قند سمجھ کر پیتے رہتے ہیں ۔معاشرے میں انسانی طبقات کی تفریق ہی کسی معاشرے کی تقسیم کی اہم وجہ ہے۔
عجب ماجرا ہے کہ اپنے اپنے گریباں میں جھانکیں تو ہم میں سے کوئی برہمن ہے تو کوئی شودر تو کوئی ڈھیڑ ،اور اسی بنیاد پہ دولت کی امارات کی اور سہولیات کی تقسیم نظر آتی ہے ۔مرشد نے کہا میرا جی چاہتا ہے کہ جھونپڑیوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کا بندوبست ہو وہ بھی تعلیم حاصل کریں ۔اور میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی کہ وہ کتنے سادہ ہیں تعلیم کی موجودہ صورتحال تو طالبعلم کو تعلیم سے بیزار کرتی نظر آتی ہے تعلیم اور ڈگریوں کی کثرت ۔اور تربیت کا فقدان اور پھر اس پہ نوکریوں کی قلت ،یہ ایسے اژدھرو کژدم ہیں کہ ان کا ڈسا پانی بھی نہ مانگے۔
میرے ذاتی خیال کے مطابق معاشرے کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ہم اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں ۔ یہ حالات دیکھ کر مجھے بے اختیار مولانا محمد حسین آزاد کا …انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ..یاد آتا ہے ۔پانچویں جماعت کے امتحان شروع ہو گئے حسب ِ معمول حد درجہ ایمان داری دیکھنے میں آرہی جس اسکول نے جتنا گڑ ڈالا اس کے طالبعلموں کو اتنا ہی میٹھا دیا جا رہا تفصیل میں نہیں جائوگی کہ سمجھنے والے قیامت کی سمجھ رکھتے ہیں۔
Dowry
وہ سر جھکائے چارپائی کے کنارے سوچوں کے بھنور میں غوطہ زن ہے اس کے جھریوں بھرے چہرے پہ تفکرات کی جھریاں اس کی عمر میں اضافہ کر رہی ہیں ۔اس کی بیٹیوں کے بالوں میں محض اس وجہ سے چاندی اتر آئی کہ اس کے پاس ان کو دینے کے لیے جہیز کے نام پہ کچھ بھی نہیں ۔اس کا دوسرا المیہ اس کا جوان بیٹا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دو سال سے بے روز گاری کا عذاب جھیل رہا ہے ۔اس کی بیوی ٹی۔بی کی مریضہ ہے جس کی حالت سرکاری ہسپتال کی دوائیوں سے سنبھلنے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے وہ پھولی سانسوں سے بڑ بڑاتی ہے کہ شاید اسپتال والے دوائیوں میں پانی ملا دیتے ہیں آرام ہی نہیں آرہا۔
منہ اندھیرے فتو قصائی نے جانور ذبح کر کے گوشت ٹانگ دیا ہے اس کے خیال میں گدھوں کو گدھوں کا گوشت کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔محلے میں گلی کی نکڑ پہ کھڑا گوالا دودھ کے خالص ہونے پہ خدا کی قسمیں کھا رہا ہے ۔جب کہ صبح ہی اس نے پانی کے ساتھ ساتھ خشک کیمیکل پاوڈر بھی دودھ میں ملایا تھا سرخ مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں ،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج ،ہر خالص چیز میں ملاوٹ ہمارا طرہء امتیاز بن گیا ہے۔ بات ہو رہی تھی خواہشات کی تو میری بھی کچھ خواہشات ہیں میرا شدت سے دل کرتا کہ میں کسی دن سو کر اٹھوں تو مجھے کھلی کھڑکی سے گندی بدبو کے بھبھکوں کے بجائے مہکتے پھولوں اور ہنستے مسکراتے لوگ دکھائی دیں نہ کہ پریشان حال لوگ۔بچے بے خوف اسکول جاتے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے نظر آئیں ۔ہوا فضا آلودگی سے پاک ہو ہر شخص محب وطن اور اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیتا نظر آئے۔
عوام کے نمائندے عوام کی خدمت کے لیے پیش پیش ہوں۔ غربت کا نام و نشان نہ ہو ہر بندہ خوشحال ہو ،تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب بھی اور تربیت بھی ہو۔میرے باصلاحیت نوجوان اپنی ساری محنت اور جدوجہد سے ملک کو ترقی کی طرف گامزن کر رہے ہوں رشوت، چور بازاری، سفارش اور جرائم کا قلعہ قمع ہو جائے۔ لاقانونیت ختم ہو اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو ۔یہ سب خواہشات ہیں اگرچہ سراب ہیں مگر میرے دل میں پنپنے والے خواب ہیں جو مجھے پر امید رکھتے ہیں کہ کبھی ایسا سویرا ضرور ہو گا۔