تحریر: بدر سرحدی ٰیہ عوام کون ہیں جن کا صبح شام ہر فورم اور میڈیا پر ہی نہیں بلکہ تھڑوں اور چھپر ٹی سٹال پر بھی زکر رہتا ہے اور سیاست دان ان کے لئے ہر وقت پریشان،لاکھوں کے نہیں بلکہ کروڑوں کے خرچ سے اسمبلیوں میں میں پہنچتے ،اب دیکھیں میاں خاندان اسی عوام کی لئے دس سال کی جلا وطنی کاٹی اوراب اسی عوام کے لئے …. زرداری جیل میں رہا بینظیر کو قتل کیا بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا ،کوئی تو اس عوام کی تشریح و تعریف کر دے کہ اس عوام کی کیا شناخت ہے اور کہاں رہتا ،جس کے لئے جمہوریت کا کھیل شروع ہوأ …..؟؟
میں نے ایک دو نہیں کئی مرتبہ لکھا کہ ملک رائج الوقت جمہوریت، جمہوریت کے زرق برق لبادے میں وقت کی بد ترین آمریت ،اگر بادشاہت کہا جائے تو … س، ا ج پھر ایک بڑے اخبار کی خاتون کالم نگار نے جمہوریت کی خوبیاں ٨٨ء سے جب ضیاء الحق کا سیاہ دور تھا،اور آج میاںنواز شریف کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے زمیں و آسمان کے قلابے ملا دئے ،پھر اگلے دس برس جب سیاست دان ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے تآنکہ مشرف نے ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی ، اس آمرانہ دور میں ڈالر سے الجھا رہا اُسے ہلنے نہیں دیا میڈیا کو وہ آزادی دی جو نہ تو آمرانہ دور میں ملی اور نہ جمہوری دور میں بھٹو کے جمہوری دور میں سرکاری ریڈیو اور پی ٹی وی پر ہی عوام کا انحصار تھا اور اور سرکاری خبروں کی جگالی کرتے جو چار پانچ اخبار تھے اُن پر بھی قدغن تھی ،
Media
آج کا کا میڈیا کسی حد تک عوام کو سیاسی شعور دے رہا ہے عوام بھی کسی حد تک سیاستدانوں کے جھوٹ اور سچ میں امتیاز کر رہے ہیں …. تو بھی میڈیا کے اس دور میں چند اخبارات اور چینلز کی اس فیلڈ میں اجارہ داری ہے، جمہوریت اور آمریت ہمہ وقت زیر بحث ہیں لیکن میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب ایک تنہا عورت بے خوف و خطر خیبر سے کلکتے تک سفر کرتی مگر آج ہر روز کے اخبار گواہ ہیں اُ س پر کیا گزرتی ہے وہ وقت پھر نہیں آسکتا جب شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے….. ایسے بھی ہیں جو صبح و شام جمہوریت ہی کے گن گاتے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ،یہ میری بد قسمتی، کہئے جس قبیل سے تعلق ہے وہاں اس نام نہاد جمہوریت کی کوئی کرن نہیں پہنچتی ،اسلئے کہ جمہوریت ہے نہیں محض چھلاوہ…،بیرون دنیا کی جمہوریت کی خبریں میڈیا کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہیں کہ فلاں ملک کا وزیر آعظم سائیکل پر دفتر جا رہا ہے ، اور فلان ملک کی خاتون وزیر آعظم دفتر سے سائیکل پر گھر جا رہی ہے ،مگر یہاں تو وزیر آعظم ہی کیا اُس کے لئے تو سڑکیں بند ہونا رواج ہے ……،یہاں تو محض بلاول زرداری کے لئے بھی سڑکیں بند اور بلٹ پروف گاڑیوں کی کانوائی ہوتی ہے کیوں نا کوئی بسمہ ہی راہ میں دم توڑ دے ….. کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کی بہت تعریف کی جاتی ہے، یہ جمہوریت نہیں بلکہ نئی دنیا کی خاندانی بادشاہت ہے کہ بلاول زرداری کے بجائے بھٹو زرداری کہلانا پسند کرتے کیوں ؟
نئے سال کی آمد پر یکم جنوری ٦ ا٠ ٢ ،کے اخبارات کی ٥ کالمی سرخی تھی وزیر آعظم نے کسی صحت پروگرام کا افتتاح کیا جس کے تحت ٣٢،لاکھ غریب خاندانوں کو مفت علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہو نگی ،وزیر ّعظم نے مزید فرمایا اب کسی کو جائیداد بیچنا پڑے گی نہ ہی کوئی قرض لینا پڑے گا ….وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا پاکستان صحت پروگرام پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد پروگرام ہے …دریں چہ شک …:: اس بارے میں وہی قلمکار بہتر تبصرہ کریں گے جو ہر روز گھوم پھر کر دنیا دیکھتے ہیں ہم جیسوں کے لئے تو پاکستان ہی دنیا ہے،تاہم میڈیا کا دور ہے پلک جھپکتے ہی دنیا کو نیٹ پر دیکھ لیتے ہیں … کہ آج کی دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے، دوسرا میاں صاحب نے یہ بھی فرمایاکہ ٩٨ء کے بعد کسی نے کوئی موٹر وے نہیں بنائی ہم پھر کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنا رہے ہیں،موٹر ویز،اورنج،ٹرین اور میٹرو کے علاوہ تو سب کام مکمل ہو چکے ،آمر پرویز مشرف تو بس ڈالر کے ساتھ لڑتا رہا کے اپنی جگہ سے ہلنے نہ پائے، اس سے فارغ ہوأ تو این آر او کھیلنے لگا،
سوچئے بھلا یہ بھی کوئی کام تھے اور قوم کے آٹھ برس ضائع کر دئے ،زرداری نے پانچ برس جمہوریت کھیل میں گویا ضائع کے اس جمہوریت نے سوائے میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیرآعظم بننے کا ضرور سنہری موقع دیا مگر عوام (کیڑے مکوڑوں ) کو اس نادر جمہوریت نے ،بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے سوا کچھ نہیں دیا ، جبکہ وزیر آعظم میاں نوزشریف بھول گئے ہیں انہیں بھول ہی جانا تھا،کہتے ہیں عوام نہیں بھولتے مگر یہ عوام اُن سے پہلے ہی بھول جاتے ہیں، مگر پرنٹ میڈیا نہیں بھولتا بے شک اسکی زندگی ایک دن ہی ہوتی ہے یاد دہانی کے لئے بلا تبصرہ… ،” اکتیس دسمبر دو ہزار گیارہ گجرنوالا کے جناح سٹیڈیم میں بہت بڑے جلسہ عام سے میاں نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا، ٦٤ برسوں میں پاکستان کو ایسا بنا دیا ہے کہ آج قائد آعظم روح اسے دیکھ کر تڑپتی ہوگی،ملکی خود مختاری کو پامال کیا جا رہا ،ریلوے اور سٹیل ملز بند ہو رہے ہیں
Corruption
کرپشن کے زریعہ لوٹا گیا سپریم کورٹ نے واپس دلایا لیکن زمہ دار وزیر نے استیعفٰی نہیں دیا ، پی آئی اے ،اور ریلوے بند ہیں غیر ملکی طاقتیں مذاق اُڑا رہی ہیں ، اقتدار میں آ کر سب سے پہلے بجلی گیس کا بحران دور کرینگے،بجلی گیس کے نرخ بڑہتے رہے تو چین سے نہیں بیٹھیں گے، حکمرانوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہے پارلیمنٹ ان کے گھر کی لونڈی ہے،ہمارے دور میں سبز پاسپورٹ کی توقیر تھی ائیر پورٹس پر گرین چینل کھولے،اب حکومت بہار سے بھیجے جانے والے پیسوں پر بھی ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے حکومت ٤٠٠،ارب جائع کر رہی ہے ….اور پھر یہ کشکول اُٹھا کر دنیا کے پاس بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں اِن حکمرانوں قوم کو بھکاری بنا دیا ،کرپشن عروج پر حکمران جیبیں بھر رہیں ،غربت نے عوام مار ڈالا اں کے چوہلے ٹھنڈے ہو چکے ہیں ہماری ٹیم انقلاب لائے گی……………”’ گزشتہ دنو معاسر نے لکھا تھا اس وقت بیرونی قرضے ٦٧ ،ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو تارخ کی بلند تریں سطح پر بقیہ عرصہ میں ٠٠ ا، سو ارب سے بھی بڑھ جائیںگے،یہ ہے چراغ تلے ، جبکہ اِس خطاب میں میاںصاحب نے فرمایا تھا اِن حکمرانوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ،
جس نگری کا راجہ بیوپاری ہو تو پرجا بھکاری ہی ہوگی ،، کیا ٢٠٠٢ سے سات تک جمہوریت نہیں تھی کہ ….،ان ڈھائی برسوں میں غریبوں میں نمایا کمی ہوئی کہ ایک موقع پر وزیر خزانہ اسحق ڈار صاحب نے کہا تھا کہ ملک میں ٦٠،فی صد لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے مگر اب صحت پروگرام اور اب کل ہی میاں شہباز شریف نے ٢٠۔لاکھ خاندانوں میں بلا سود قرضوں کی پہلی قسط جاری کی ہے کہ غریب اپنا کاروبار جاری کر سکیں،گویا ملک میں اس وقت غریبوں کی کل تعداد ، ٢ا،٢٠،یا ٣٢ لاکھ غریب خاندانوں کے مفت علاج معالجہ کی سہولتیں ملیں گی اور ٢٠ ،لاکھ کو قرضوں کی سہولت ،یعنی ٥٢،لاکھ ہے