تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی پوری دنیا میں شرق تا غرب،شمال تا جنوب ،فرش تا عرش ،،وما ارسلنک الارحمة اللعالمین” کی آفاقی صفت والے پیغمبر انسانیت ،رسولِ رحمت ،حضور نبی کریمۖ کی تعریف و توصیف کا سلسلہ عروج پر ہے بلکہ جہاں پر ”سلسلہ عروج ”کا اختتام ہوتا ہے وہاں سے کریم آقا کی عظمت و بلند ی کا سفر شروع ہوتا ہے ”با ادب ، بانصیب” ایک مشہور مقولہ ہے، جتنا زیادہ ادب و احترام کے تقاضوں کا خیال رکھا جائے گا اتناہی زیادہ ہماری جھولیوں میں فیو ض و برکات آئیں گے ستمبر 2004ء کی وہ سہانی صبح جب معروف ثناء خواں برادر عزیزقاری افضال انجم صاحب نے یا دکرایا کہ آج الحمراہال مال روڈ لاہور میں ایک عظیم الشان ،،اصلاح محافل نعت ‘سیمینار” کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس میں وطن عزیز کے جید مشائخ عظام اور باعمل علماء کرام تشریف لا رہے ہیں۔
میرے لئے موضوع اگرچہ نیا تھا اس سے قبل کسی کو بھی اس اہم کام کو کرنے کا خیال تک نہ آیا سوچا ضرور جانا چاہیے۔ وقت مقررہ پر جب الحمرا ہال پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور انتہائی درجے کی خوشی بھی ہوئی کہ تقدس نعت کی پامالی اور بے حرمتی کے دور میں کون ایسا مردِ قلندر ہے جس نے اصلاحِ محافل نعت کا بیڑا اٹھایا ہے سٹیج پر موجود روحانی و علمی شخصیات کا جب تعارف کرایا گیا تو خوبصورت دستار سجائے ایک بہت ہی خوبصورت چہرہ نظر آیا معلوم ہوا کہ یہی وہ مرد درویش ہیں جنہوں نے تحریک اصلاح محافل نعت کی بنیاد رکھی ہے اور آج اس سلسلے کا پہلا شعور ی سیمینار کاانصرام بھی کیا ہواہے۔
محقق العصر علامہ مفتی محمد خان قادری صاحب کی باتیں دل کی گہرائی میں اتریں وہاں پر تحریک اصلاحِ محافل نعت کے روح رواںعظیم ر و حانی شخصیت حضرت علامہ پیر سید محمد قاسم حسین شاہ رحمة اللہ علیہ ( آستانہ عالیہ بودلہ شریف آف لودھراں)کی فکر انگیز اور سچی باتیں بھی سننے کو ملیں انہوں نے اصلاح محافل نعت تحریک کی غرض وغایت اور محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ،،گذشتہ سال رجب المرجب کی بات ہے ایک محفلِ نعت سمن آباد گرائونڈ میں تھی میں وہاں سے خطاب کے بغیر ہی واپس لوٹ آیا۔ اس محفل کا مجھے بے حد دکھ ہوا یہاںآپ ۖ کو عامیانہ انداز میں نعت کے دوران مخاطب کیا جا رہا تھا۔ اسی شب مجھے سرکار دو عالمۖ کی زیارت ہوئی۔
Mehfil-e-Naat- Paistan
آپۖ کے دائیں سائیڈ شانہ مبارک پر قادری کلر ( تقریباً کلیجی رنگ) کی چادر مبارک ہے جو جھلملا رہی ہے میں نے دیکھا اس محفل مبارکہ میں بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے مسکراکر میری طرف دیکھا اور بلا لیا۔ میں آگے آکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر آپۖ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضورۖ ! آجکل پاکستان میں محفل نعت کا بڑا عروج ہے۔ آپ نے اس طرف دیکھا اور نظر انداز کرتے ہوئے رخ مبارک پھیر لیا گویا کہ آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ نیز آپ نے یہ ارشادفرمایا:۔،،مجھے ایسی نعت خوانی کی ضرورت نہیں ہے جو میری امت کے لئے انتشار کا باعث ہے مجھے ناپسند ہے۔ ہم ضیاء الدین کی اولاد سے اس بندے (میری طرف اشارہ کر کے فرمایا) کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں پھر مجھے مخاطب کر کے آپۖ نے ارشاد فرمایا۔ تم علماء سے جا کر کہو انکے دروازے پر دستک دو کہ وہ محافل نعت میں منفی رسومات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ سننے کے بعد جذبات کی فراوانی کے سبب میں گر پڑا اور پھر کچھ دیر بعد سر اٹھا کر حضورۖ کی طرف دیکھا اور عرض کی کہ یا رسول اللہۖ ! میری بات کیسے مانی جائے گی؟۔
آپۖ نے مجھے تھپکی دی اور فرمایا اٹھو۔ تائید ہوگی، تم محافل نعت کی اصلاح کرو، تائیدہوگی” اس کے بعد ہم نے حضورۖکے ارشاد گرامی کی تعمیل میں اصلاح محافل نعت کا بیڑا اٹھا لیا واضح رہے کہ ہم نے یہ جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ کر رہے ہیں اس کا اجر کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملے گا اور ہمیں یہ خوشی ہے کہ آپۖ نے اپنے خانوادہ ہی کے اس خادم کو یہ حکم ارشاد فرمایا۔ یہ پیر کا دن تھا جب مجھ ناچیز پر یہ کرم ہوا”۔
ایک شعر ہمارے اکثر نعت خواں، کیا جاہل خطباء اور کیا کمرشل سٹیج سیکرٹری ؟ بڑے دھن گرج کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ گر حبیب تو برا نہ مانے تو محبت کی اساس رکھ لوں جسم زمانے کو بھیج دوں اور سایہ پاس رکھ لوں
لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ۔ میرے نزدیک حضورۖ کے لیے اس طرح کے الفاظ اور مفہوم استعمال کرنا حرام ہے ایسے ہی آپۖ کے لیے ماہی، سوہنا، مکھڑا، ڈھول یا ایسے ہی دیگر عام الفاظ استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ اور رسول اللہۖ کی محبت کو عام دنیاوی محبت پر قیاس ہی نہ کیا جائے جب یہ بیماری ختم ہوگی تو علاج خود بخود ہو جائے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولۖ سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سنتا جانتا ہے… اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبیۖ) کی آوازسے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبرتک نہ ہو… (الحجرات1،2ترجمہ، کنزالایمان)۔
ایک ناقص اور ایسا کلام جو بارگاہ رسالت مآبۖ کے شایانِ شان نہیں میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اور نہ ہی باریک بینی میں۔ مثلاً چند مشہور نعتیںپڑھی جاتی ہیں۔ ١۔ حلیمہ کلی نوں ویکھے کدی سرکارۖ نوں ویکھے ٢۔ میں کچھ وی نئیں جے تیرے نال میری کوئی نسبت نئیں ٣۔ آئوآئو بازارِ مصطفےٰ کو چلیں کھوٹے سکے یہیں پہ چلتے ہیں ٤۔ لبھ کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرے نال دا ٥۔ محفل نوں سجائے رکھنا اوہدے آن داویلا اے
وغیرہ ایسی اور بہت ساری ہیں جو بالکل ٹھیک نہیں آپ غورکریں کہ جس رسولۖ کی آمد سے ساری کائنات کو اعزازو اکرام ملا۔ عزت اور وقار ملا،حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہاکے گھر کو کلی یا کٹیاکہنا کیسے درست ہے ۔۔۔۔؟ اس کوہمارا جاہل نعت خواں کلی اور کٹیا کہے جار ہا ہے جس کا مقام آپۖ کی آمد کے سبب عظیم ترین ہوگیا اور ایک اور بھی بیماری ہے جس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اب غور فرمائیں کہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہاحضور نبی کریم ۖ کی ماں ہیں اور لوگ انہیں دائی حلیمہ کہتے ہیں یہ بھی جسارت ہے کم ازکم دائی کے بجائے مائی ہی کہہ دو تاکہ ادب ملحو ظ رہے دوسرا مصرعہ یہ بھی محض اداکاری ہے۔ تیسرا مصرعہ کہ دربار مصطفیۖ میں کھوٹے سکے چلتے ہیں بالکل خلافِ حقیقت ہے حضورۖ کی بارگاہ میں کھوٹے کی نہیں کھرے کی قدرو قیمت ہے اور وہاں آنے والا کھوٹا رہ ہی نہیں سکتا۔
Muhammad PBUH
آپ اندر باہر سے اجال دیتے ہیں چوتھا مصرعہ ہے دیکھئے حضورۖ جیسا اللہ کریم نے ساری کائنات میں کوئی پیدا ہی نہیں کیا اور یہ دیکھو سوہنا تلاش کرتا پھرتا ہے جب کوئی ہے ہی نہیں ، تو تلاش کرنا عبث ہے اسے تلاش کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اگلا مصرعہ دیکھیں کہ ”محفل نوں سجائے رکھنا اوہدے آن داویلا اے” اس طرح کا تصورغلط ہے کہ حضورۖ ہر محفل میں آرہے ہیں،،الحمدللہ پاکستان ہی میںنہیں پوری دنیا میں محافل میلاد ونعت کی صورت میں عظمت ورفعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم روز بروز بڑھ رہا ہے اور اللہ تعا لی کے اس واضع اعلان ”ورفعنالک ذکرک ”کا عملی مظاہرہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس عظیم الشان بشارت کہ ”بیشک (اے حبیب ۖ)آپ کی (ہر) بعد والی (ساعت)آپ کیلئے پہلی (ساعت)سے بہتر ہے ”(الضحی ،٤)کے بعد کسی صاحب ایمان کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ سروردوعالم ۖکی عزت وتوقیر اور منصب میں ہر آن اورلحظہ بہ لحظہ ترقی اور بلندی ہورہی ہے اور اللہ تعالی اپنے محبوب کریم ۖکے ذکر پاک کو جملہ عالمین میں بالعموم اوراس آب وگل میں بالخصوص قریہ بہ قریہ ،کو بہ کو بستی بہ بستی ،گھر بہ گھر ،گام بہ گام ہر آنے والے لمحہ میں بلند ترکررہاہے اور آپ ۖکے ذکرخیر سے اپنے دلوں کو منور کرنے والے ذ اکرین کی تعداد ہر طلوع ہونے والے دن اورہر چھاجانے والی رات کے ساتھ حیرت انگیز رفتارکے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے کہ یہی منشائے پروردگارہے۔
اللہ کے پیارے محبوب کریم ۖ کے میلاد پاک کی پاکیزہ ،مصفی اورمقدس محفلیںسجانا اوراپنے آقا ومولی کے حضور درود وسلام کے نذرانے پیش کرنا صحابہ کرام ،تابعین ،تبع تابعین ،سلف صالحین ،آئمہ دین ،محدثین ،مفسر ین اور اولیا ئے کا ملین کا پسندیدہ ا ورمحبوب ترین عمل رہا ہے گذشتہ ساڑھے چودہ صدیوں سے حلقہ بگوشان اسلام دنیا بھر میں نسل درنسل انتہائی ذوق وشوق کے ساتھ اس روشن راہ پر چلتے ہوئے اپنے رب کی رضا کی منزل پانے کی سعی مسعود کرتے چلے آرہے ہیں وطن عزیز میں بھی حضور نبی کریم ۖ کے غلام سال بھر مقصود کائنات ،جان کائنات حضور ۖ کی مدح سرائی کی محافل منعقد کرنے میں سرشارنظر آتے ہیں بالخصوص ما ہ مقدس ربیع الاول شریف کا چاند طلوع ہوتے ہی مساجد ،پبلک ہالز اورگرا ئونڈز ہی نہیں گھر گھر، گلی گلی، قریہ قریہ بستی بستی ،کو چہ کوچہ حضور ۖ کے میلاد پاک ااورثنا خوانی کی محفلیں سجنے لگتی ہیں بلکہ اب تووہ لوگ بھی جو کبھی محافل کو بدعت وشرک تصور کرتے تھے مسلمان عوام سے رشتہ قائم رکھنے اور اپنی گرتی ہوئی سیا سی ساکھ کو بچانے کیلئے اپنے ہاں بھی اس قسم کی محافل منعقد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اوریہ خوش آئند بات ہے ہمیں میلادالنبی ۖ بھی منانا چاہیے اورسیرت النبی ۖ بھی اپنانی چاہیے ہم میلادالنبی توشوق سے مناتے ہیںمگر سیر ت النبی ۖکو اپناتے ہوئے ذرامشکل در پیش آتی ہے حالانکہ سیرت النبی ۖ ہی وہ اکسیر اور نسخہ کیمیاء ہے جس میں ساری روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔
محافل میلادونعت کے تقدس ،پاکیزگی اوراحترام کا تقاضہ ہے کہ ان پاکیزہ محافل کے منتظمین اور شرکاء ادب واحترام کی حدود وقیود کا پورا اہتمام رکھیں اور دربار مصطفی ۖ کے آداب کے منافی بھول کر بھی کوئی ایسی حرکت نہ کریں کہ جس سے رب ذوالجلال ہمیں اپنی گرفت میںلے لے کیونکہ یہ اسی پاکیزہ ہستی کی بارگاہ ہے جہاں پرملائکہ کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی ادب و احترام کے تمام تقاضے ملحوظ خاطررکھ کر حاضری کی سعادت حاصل کرتے تھے اورآج کل ہمارے نعت خواں حضرات ادب واحترام کا خیال نہیں رکھتے اوراچھل اچھل کر گانوں کو طرز پر نعت خوانی کررہے ہوتے ہیں۔بلکہ بعض نعت خواںحضرات توموبائل ”سٹوڈیو” ہی ساتھ لئے پھرتے ہیں اورعجیب وغریب آوازیں نکال کر نعت خوانی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ نعت خوانوں کے ”بھڑ کیلے”اور”شو خ لباس”ہی اس بات کی نفی کررہے ہوتے ہیںکہ وہ ثناخواں ہیں ؟۔
راقم کے خیال کے مطابق ایسے انداز سے نعت خوانی کرنامحفل نعت کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہوتاہے اور محفل میں پاکیزگی اور طہارت کی وہ روح باقی نہیں رہتی جس کے حصول کے لئے غلامان مصطفی ۖدوردراز کا سفر طے کرکے آئے ہوتے ہیں بعض اچھے بھلے معروف نعت خواں حضرات کو دیکھا گیاہے کہ وہ خود بھی عجیب وغریب انداز سے اچھل رہے ہوتے ہیں اورسامعین کو بھی زبردستی ہاتھ اوپر اٹھانے اورلہرانے کو کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ محفل نعت کے تقدس کا تقاضایہ ہے کہ خاموشی اور ادب واحترام کیساتھ تشریف فرماہوں۔
Writer
بعض نعت گو حضرات نے بھی حد کردی ہے جس کو دو حرف لکھنے اور پڑھنے آجاتے ہیں وہ قلم اور کاغذ اٹھاتا ہے اور سیدھا بارگاہ نبوی میں پہنچ جاتاہے حالانکہ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ جیسا فصیح وبلیغ انسان بھی جب نعت لکھنے بیٹھتا ہے تو فصاحت وبلاغت اورحکمت دانش کی فراوانی کے باوجود بھی ایک مقام ایساآتاہے کہ آپ عاجزی کا اظہار کرتے ہیںاور پھرجہاں عاجزی وانکساری کی فراوانی ہو پھر وہاں رحمت عالم ،رہبر انسانیت ۖ راہنمائی فرماتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں سعدی کہو ”صلو اعلیہ والہ”آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے پاکیزہ الفاظ آج آفاقی شہرت اختیار کرگئے ہیں حالانکہ نعت گوئی کے میدان میں ادب اورحکمت ودانش کے سانچے میں ڈھلے ہوئے بڑے معروف نعت گوحضرات کا کلام دستیا ب ہے جن میں جوش ملیح آبادی ، آغا شورش کاشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،نعیم صدیقی ،ضمیر جعفری ،محسن کا کوروی، حفیظ تائب ،امیر مینائی ،ماہر القادری ،صبامتھراوی ،حفیظ الرحمن احسن ،علامہ اقبال، نظرزیدی،اعلی حضرت امام حمدرضا بریلوی، حسن رضاخان ،شیخ سعدی، بیدم وارثی،حضرت رومی ،حضرت جامی ،امام بوصیری وغیر ہ شامل ہیںمگر ہم نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ان کے کلام کو پڑھاجائے پڑھناتودرکنار ہم توچھونا بھی ”گناہ ” سمجھتے ہیں فکری سید مرشد خورشید احمد گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نعت کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
”نعت دراصل مومن کا وظیفہ حیات ،ادیب کا سرمایہ فن ،دانشور کی آبروئے فکر ،اہل دل کا سامان شوق ،شب زندہ دار کی آخری بانگِ بلال ،پروانے کا سوز ،بلبل کا ساز قلب کا گداز ،آئینہ روح کی تا ب ،آبشارمحبت کا ترنم ،قلزم عشق کی موج ،منزل سعادت کا چراغ،کتاب زیست کا عنوان ،حیات عشق کی گرمی ،سینہ کائنات کا راز ،دیدہ نمناک کا موتی ،خاک حجازکی مہک ،فضائے طیبہ کی نکہت،ازل کی صبح ،ابد کی شام اورشاعر کے رتجگوں کا حاصل ہے ۔نعت سے غنچہ روح کھلتا،چشمہ جاں ابلتا،گلشن ایماں مہکتا،بحرشوق امڈتا،افق فکرچمکتا ،سینہ ذوق مچلتا،قلب کون ومکاں دھڑکتا،حسن زندگی نکھرتا اور قدشعروفن ابھرتاہے ”۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”حضرت بلال کی اٹوٹ نسبت،حضرت حسان کی شاہکاربلاغت، کعب بن زہیر کی لسانی طاقت ،رومی کی دانش وحکمت ،جامی کی سچی عقیدت،سعدی کی لافانی فصاحت ،قدسی کی بے آمیز محبت ،بوصیری کی روحانی حلاوت ،مرزا بیدل کی فلفسیانہ حیرت ،اقبال کی عبقریت،امیرمینائی کی طویل ریاضت ،غالب کی معانی آفرین ادبیت، فاضل بریلوی کی غیر مشروط محبت ،شبلی کی پاکیزہ روایت،سلیمان ندوی کی عالمانہ متانت ،بیدم وارثی کی ادائے فنائیت ،محمدعلی جوہر کی سکہ بندخطابت،حسرت موہانی کی فنی مہارت، بہادر یار جنگ کی ایمانی حرارت،ظفرعلی خان کی بے پناہ جرات ،نعیم صدیقی کی فکری طہارت،جوش ملیح آبادی کی ادبی سطوت، عبدالعزیز خالد کی مسلمہ علمیت اور حفیظ تائب کی عاشقانہ بصیرت جب شاعری کے قالب میں اترتی ہے تو نعت کی صورت اختیار کرلیتی ہے ”۔
سرکاری ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن روشن خیالی کے نام پر تاریکیاں پھیلانے اوراعتدال پسندی کی آڑ میںبے اعتدالی اوربے راہ روی کی ساری حدیں پھلانگنے کی ڈیوٹی بڑی جانفشانی کے ساتھ سرانجام دے رہاہے اسکی سکرین پر فلم ،ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے گویوںکے علاوہ کچے پکے راگ گانے والوں اور پاپ سنگرز کی فوج ظفرموج اپنے مخصوص رنگ میں سازوں کے ساتھ میدان نعت میں جولانیاں دکھاتی نظرآتی ہے یہا ں دوگانہ اور کورس کے انداز میں مردوزن کی مخلوط نغمہ سرائی کو بہت پذیرائی ملتی ہے میڈیاکی دنیا سے باہر کے بعض نعت خواںحضرات بھی ایسی قباحتوں کو جائز ومباح جان کر اس رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک بے نام سی قنات عورتوں اورمرد سامعین کے درمیان حائل ہے جبکہ اسٹیج پر براجمان حضرات کو سبھی حاضر خواتین کا ”محرم ” گردان لیاگیاہے اوروہاں موجودعلماء و مشائخ کی پیشانیوں پر عرق انفعال کا قطرہ تک نمودارنہیں ہوتا(اناللہ واناالیہ راجعون)۔
بات ہو رہی تھی محفل نعت کے آداب اورتقدس کے حوالے سے !آج جب ان پاکیزہ جلوسوں اور محافل میںڈھول کے تاشوں اورچمٹوں باجو ںکی آلودگیاں دیکھتے ہیں توکانپ اٹھتے ہیں کہ یہ جسارتیں جناب رسول ۖ کی کس قدر آزردہ دلی اورمالک دو جہاں کی سخت ناراضی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ محافل کا حال بھی جلوسوں سے کسی طرح مختلف نہیں ہے چاہیے تو یہ تھا کہ تمام حاضرین باوضودسر ڈھانپے ،دوزانوںیا چارزانوں مئودب بیٹھ کر شریک محفل ہوں اور پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ حضورنبی کریم ۖکی با گا ہ بیکس پناہ میں پیش کئے گئے گلہائے عقیدت سے اپنے قلوب واذہان کو منورکریں اور خودبھی درودوسلام کی ڈالیاں اپنے آقا مولی ۖ کے حضور پیش کرتے رہیںلیکن بے تو جہی ،فضول گفتگو یا لمبی تان کر سوجانے تک کو روارکھاجاتاہے۔
Natt Khawan
ثناء خوانی رسول ۖ کوئی معمولی کا م نہیں ہے یہ سنت اللہ اور سنت صحابہ وسلف صالحین ہے ،مقصد محض اللہ اوراس کے محبوب کریم ۖ کی رضاجوئی ہونا چاہیے عام مشاہدہ یہی ہے کہ یہ کار خیراب کاروباربنتاجارہاہے ثناخواں حضرات خودکو ”پیشہ ور”کہتے ہوتے ذرانہیں شرماتے جہازکا کرایہ اورفی محفل بھاری معادضہ کی پیشگی ادائیگی کے بغیر دعوت قبول نہیں کی جاتی اگراس قسم کا کوئی انتظام نہ بھی کیا جائے تو کم آمدنی والی محفلوں کو آئندہ برس کیلئے نشان زدہ ٹھہرایاجاتاہے کہ پھروہاں قدم نہ رکھیں گے ۔اعلحضرت امام احمدرضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے وعظ کہنے اورنعت پڑھنے کے عوض مالی منفعت پہ یو ں فتوی جاری کیا ہے۔
1)اگر وعظ کہنے اور حمد ونعت پڑھنے سے مقصود یہی ہے کہ لوگوں سے کچھ مال حاصل کریں توبیشک یہ اس آیہ کریمہ اولئک الذین اشتروا الحیوة الدنیا باالاخرة کے تحت میں داخل ہیں اور وہ آمدنی ان کے حق میں خبیث ہے خصوصاًجبکہ یہ ایسے حاجت مندنہ ہوں جن کو سوال کی اجازت ہے کہ ایک تو بے ضرورت سوال دوسرا حرام ہوگا اوروہ آمدنی خبیث تر وحرام مثل غصب ہے ۔ 2)دوسرے یہ کہ وعظ وحمدونعت سے ان کا مقصوداللہ ہے اورمسلمان بطور خود ان کی خدمت کریں تو یہ جائز ہے اور وہ مال حلال ، 3)تیسرے یہ کہ وعظ سے مقصود تو اللہ ہی ہومگرہے حاجت مند اور عادةًمعلوم ہے کہ لوگ خدمت کریں گے اس خدمت کی طمع بھی ساتھ لگی ہوئی ہے تو اگرچہ یہ صورت دوم کے مثل محمود نہیں مگر صورت اولیٰ کی طرح مذموم بھی نہیں جیسے درمختارمیں فرمایاالوعظ لجمع المال من ضلالة الیھودوالنصاری ”مال جمع کرنے کیلئے وعظ کہنا یہودونصاری کی گمراہیوں سے ہے” یہ تیسری صور ت بین بین ہے (العطایہ النبویہ فی الفتاوی الرضویہ جلد نمبر ١٠مطبوعہ ادارہ تصنیفات امام احمد رضاخان بریلوی بار اول فروری 1988ص415)۔
محافل نعت میں ایک بڑی بدعت یہ درآئی ہے کہ ثنا ْخواں حضرات بلکہ بعض اوقات واعظین حضرات پر بھی نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیںجیسے اوباش تماش بین طوائفوں کے مجروں میںکیا کرتے ہیں اعلحضرت امام احمد رضاخا ن سمیت تمام بزرگوںنے تو نوٹ اُچھالنے کو اس لئے براجانا ہے کہ لکھے ہوئے ناموں کی بے حرمتی ہوتی ہے لیکن اس قبیح مماثلت کی بدولت بھی اسے تر ک کرکے سلجھے ہوئے طریقہ سے باادب نذرانہ پیش کیاجاناچاہیے جولوگ ایک سے دوسرے ،دوسرے سے تیسرے صاحب تک بدست جاتے اور ایک حلقہ سا بنا کر ثنا خواں تک پہنچتے ہیں وہ مئودب اور متوجہ سامعین کے ذوق میں رخنہ انداری کے مرتکب ہوتے ہیں ا س لئے اجتناب ضروری ہے۔
معروف نعت خواں حضرات اور بعض اوقات نقباء محفل کی پذیرائی کیلئے انہی کی قائم کی گئی ”انجمن ہائے ستائش باہمی ”کے لوگ تاج پوشی کی رسوم اداکرتے ہیں امام الانبیاء سے لے کر امام احمد رضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ تک ہمیں تو کوئی ایک مثا ل ایسی نظرنہیں آتی کہ کسی کی تاج پوشی کی گئی ہو،اسلامی تاریخ میں بھی صرف مطلق العنان حکمرانوں نے ہی بیت المال کو ”بیتِ مال” سمجھتے ہوئے خود پر حلال قرار دے کر اس طرح کی غیر شرعی رسوم کاارتکا ب کیا ورنہ خلافت راشدہ تو خا لصتادرویشی سے عبارت ہے علم وفضل کے حامل علمائے دین یا سلاسل طریقت کے خلفاء کو دستار فضیلت یا دستار خلافت سے تو نوازاجاتاہے لیکن تاج پوشی کی روایت ایجاد بندہ سے زیادہ کچھ نہیں حالانکہ سوناپہننامرد کیلئے اس ہستی نے حرام قرار دیا ہے جن کے نام پر ”محفل میلادالنبی ۖ سجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں نعت خواں حضرات بڑے جوش اور دھوم دھڑلے سے”انجمن ہائے ستائش باہمی”کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کی تاج پوشی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
Gold Ring
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ۖ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی پس اس کو نکال کر پھینک دیا اور فرمایا ( کیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ آگ کی انگاری کو اپنے ہاتھ میں ڈالے پس رسول اکرم ۖ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی اٹھالے اور ( بیچ کر ) اس سے فائدہ اٹھا لے اس نے جواب دیا اللہ کی قسم میں اس کو کبھی نہ لوںگا حالانکہ رسول اللہ ۖ نے اس کو پھینک دیا ہے۔ محافل نعت میں اجتماعات کو عظیم تر بنانے کیلئے حاضرین میں عمرے کے ٹکٹوں کی تقسیم یا شادی کے لئے بچیو ں کو جہیز کے نا م پر انعامی رقوم دینے کیلئے قرعہ اندازی کی جاتی ہے لوگ شناختی کارڈ کی کاپیاں جمع کروانے اور صبح کی اذانوں تک قرعہ اندازی کے انتظار میں شریک محفل رہتے ہیں محافل نعت کا تسلسل صبح کی اذانوں تک جاری رہتاہے اور اکثریہ دیکھاگیاہے کہ سامعین ،واعظین ،ثناخواں سمیت صبح کی نماز کی سعادت سے محروم رہتے ہیں حالانکہ نعت سنناسنت اور مستحب عمل ہے مگر ہم فرائض کے تارک ہورہے ہیں یہ ہماری بدنصیبی ہے اس کے سوامیںکیا کہہ سکتاہوں دعا ہی کی جاسکتی ہے اللہ تعالی ہمیں فرائض کی ادائیگی اور سنت پر عمل کی توفیق فرمائے ۔بلکہ محقق العصر مفتی محمدخان قادری کے بقول ” بابافرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے معروف ثناء خواں کو جب دیار غیر میں منعقدہ ایک محفل نعت کے بعدصبح سویرے نمازکے لیے جگانے کی کوشش کی گئی تو باربار جگانے پر اس نے یہ دلخراش جملہ بولا” یا تو ہم سے نعتیں پڑھوالیاکریں یا پھر نمازیں دودوکام ہم سے نہیں ہوتے ”۔
یہ توصرف ایک جھلکی ہے سینکڑوں ثناء خواں ایسے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتاہوں محفل نعت میں جانے سے پہلے تازہ کلین شیوکرواکر سر پر سندھی ٹوپی ویسکوٹ اور کلف لگا سوٹ پہن کر ثناء خوانی کیلئے محفل میں پہنچ جاتے ہیں اور وہ نماز کے تو قریب سے بھی نہیں گزرتے شادی کیلئے بچیوں کو جہیزکے نا م پر انعامی روقوم دینے کیلئے صاحبان ثروت کو تو مستحقین کی خدمت یو ں کرنے کا حکم ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو باقاعدہ اشتہاری مہم چلاکر نیکی کرنا کس طرح اجر وثواب کا پیش خیمہ بن سکتاہے ؟ یہ سوال خود اپنے اندر شافی جواب رکھتاہے حالانکہ شیخ ابوبکرکلابازی رحمتہ اللہ علیہ نے ”التعرف ” میں اخلاص عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔
‘خالص عمل وہ ہے جس کافر شتے تک کو علم نہ ہوکہ لکھ سکے ،شیطان کو بھی خبرنہ ہوکہ خراب کرسکے اورنہ ہی نفس کو پتہ چلے کہ اس پر فخر کر سکے ” ان محافل نعت میں نقیب محفل حضرات بالعموم ایک طرح کے رٹو طوطے ہوتے ہیں جنہوں نے چند جملے اورمخصوص اشعار ازبر کئے ہوتے ہیں شیعہ ذاکروں کی طرح یہ عوامی جذبات سے کھیلتے اورمال بٹورتے ہیں بعض ”بڑے لوگوں ”کی بے جاخوشامدبھی ان کی آمدنیوں میں چار چاند لگانے کا سبب بنتی ہے یہ ثناء خوانوں کے عملی رقیب ہوتے ہیں جو انہیں تو وقت کی کمی سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن خوددادطلبی اورزرجلبی کی غرض سے سب سے زیادہ وقت ہڑپ کر جاتے ہیں اور بعض اوقات بلکہ اکثردیکھاگیاہے کہ حضور نبی کریم ۖ کی تعریف وتوصیف کرنیکی بجائے میزبان محفل کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے کرتے ان کی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ آج کل ” محافل نعت ” کے انعقاد میں وہ لوگ پیش پیش ہیں (الاماشاء اللہ ) جن کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ حرام ذائع پرمشتمل ہوتاہے جتنابڑاحرام خور،سود خور،حق خور ،نماز خور، چندہ خور،مال یتیم خور ہوتاہے ہمارے نقباء محفل اس کے سینے پر اتنا ہی بڑا عاشق رسولۖ کا تمغہ سجانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمارے لئے یہ سعادت ہی کافی ہے کہ ہمارا شمار امت محمدیہ میں ہے ہمارا ہمسایہ بھوک اور مفلسی کی وجہ سے سسک سسک کر جان دے رہا ہوتا ہے غریب اور یتیم بچہ ہمارے محلہ میں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم ہوتاہے مگراسی محلہ کی اس گلی میں لاکھوں روپے خرچ کرکے محفل نعت کا انعقاد کیا جارہا ہوتاہے۔
اسی ہی محلہ میں ایک غریب اور مستحق بچی جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بابل کی دہلیزپر دلہن بننے کی حسرتیں دل میںلیے بوڑھی ہورہی ہوتی ہے مگر ہم ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کے بل بوتے پر جہازی سائز کے رنگارنگ پوسڑز، اخباری اشہارات دعوتی کارڈوں ،معرف ثناء خوانوں کی ماڈلنگ کے روپ میں رنگین تصویریں اور انکی معقول خدمت اور عمرے کی ٹکٹوں پر زرکثیر خرچ کرکے رسول اللہ ۖ کے غلامو ں کو جمع کرکے عاشق رسول کہلوانے کے شوق میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ ان محافل نعت کے انعقاد کا ایک مثبت ترین پہلو یہ بھی ہوناچاہیے کہ ان اجتماعات کو امر باالمعروف ونہی عن المنکرکا پیغام عام کا ذریعہ بنایاجائے قرآن وسنت پر مبنی مواعظ حسنہ لوگوں تک پہنچائے جائیں اولیاء وصلحائے امت بالخصوص اعلحضرت امام احمد رضابریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں عوام الناس میںمحبت رسول ۖ کی شمع کوفروزاں ترکیاجائے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو ان پاکیزہ اور قدسی نفاس ہستیوںکے نقوش پاکی راہنمائی میں سنوارسکیںجو ہماری نجات کا باعث ہوں بازاری اورسوقیانہ انداز سے قصے ،کہانیاں بیان کرنے والے واعظین اوردرباری علماء سے جان چھڑاکر مستندباعمل علماء سے استفادہ کیاجائے تاکہ محفل نعت کے انعقادکی اصل روح تک ہماری رسائی ہوسکے اور ہماری مردہ روحوں کو ذکررسول ۖ اوراصلاح احوال پرمبنی دروس سے جلامل سکے نعت خوانی بلاشبہ نہایت ہی احسن عمل ہے اور اس کے بغیرزندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتانعت خوانی ہی سے کائنات کا حسن ہے اور یہ جو ہر طرف بہاروں کا نکھار ہے نعت خوانی کا ہی صدقہ ہے۔ چاہتے ہوتم اگر نکھرا ہوا فردا کا رنگ سارے عالم پر چھڑک دو گنبد خضراکا رنگ
SEERAT-UN-NABI
آپ ۖ کی حیاتِ طیبہ از ابتداء تا انتہا اعجاز ہے ، اعجازہی اعجاز! آپ ۖکا ظہور ، ظہور قدسی ہے کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اسکی صورت و سیرت یا ذات و صفات کے بیان کی قدرت رکھتا ہے جہاں حسان اور بو صیری ایسے شاعروں کے طائر تخیل کی اڑانیں سہم سہم جائیں جہاں سحبان اور عطاء اللہ شاہ بخاری، ایسے معجز بیان خطیبوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں اور الجاحظ، سعدی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ ایسے ادیبوں کے قلم اعترافِ بے مائیگی کرتے نظر آئیں وہاں ہماشما کس قطار شمار میں ہیں؟ حضور ختمی مرتبت، آیۂ رحمت کی ولادت باسعادت جن بہار پرور گلاب آفریں، آفتاب خیز، ماہتاب ریز، ستارہ بیز،فجر انگیز، نورانی ، پاکیزہ، اجلی، دودھیا، محترم ، محتشم ، مکرم،مجلّی، مزکی، مصفا، منزہ، معطر، منور، معنبر، مطہراور مقدس ساعتوں میں ہوئی وہ ساعتیں سرمایہ کائنات اور حاصل موجودات ہیں، عقیدے، عرفان، ایقان اور محسوسات سے سرشار خوش بخت اور خوش عقیدہ صاحبِ ایمان کااس امر پر حق الیقین ہے کہ اگر خالق کائنات نے آپ کواس کائنات کی برات کا دولہا نہ بنانا ہوتا تو یہ کائنات، جلال و جمال کی تمام تر دلآویز یوں، دلربائیوں ،دلبریوں، رعنائیوں اور زیبائیوں سے یکسر محروم رہتیں۔
آپ ہی کی نعلین پاکی گردِپاک کے صدقے رب کائنات نے آشباروں کو ترنم، لالہ زاروں کو تبسم، پہاڑوں کو جلال، ستاروں کو جمال، پھولو ں کو رعنائی، بگولوں کو برنائی، شفق کو لالی، کھیتوں کو ہریالی، دھوپ کو وقار، چاندنی کو نکھار، قوس قزح کو رنگینی، چٹانوں کو سنگینی، سبزے کو لہک، شگوفے کو مہک، موجوں کو بے تابی، جھونکوں کو شادابی، ریشم کو سرسراہٹ، شبنم کو نرماہٹ، کلیوں کو مسکراہٹ، کرنوں کو جگمگا ہٹ، بیابانوں کو بے کرانی، آسمانوں کو تابانی، آندھیوں کو جولانی، سمندرں کو طغیانی، وادیوں کو خندیدگی، چوٹیوں کو سنجیدگی، بادلوں کو للکار، بوندوں کو جھنکار، تجلیوں کو بے باکی، شمشیروں کو براقی، قلم کو خرام، لو ح کو دوام، کندن کو ڈلک، موتی کو جھلک، بلبلوں کو زمزمے، زلزلوں کو ہمہمے، جبینوں کو نیاز، سینوں کو گداز، لہروں کو ساز، شعلوں کو پرواز، حسن کو سادگی اورعشق کو تازگی عطا کی۔
داستانِ حُسن جب پھیلی تو لا محدود تھی اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی
یہ آپ کی انقلاب تعلیمات کا فیضان تھا کہ ذرے سورج بن گئے ، کنکرموتیوں کا روپ دھار گئے، کانٹوں نے پھولوں کی قبا پہن لی، شعلے شبنم بن گئے اور خنجر مرہم ٹپکانے لگے آپ کی نگاہ جہاں جہاں پڑی صبحیں بیدار ہوگئیں ، سورج طلوع ہوگئے اوراُجالوں کی بستیاں آباد ہوگئیں آپ کے مبارک قدم جہاں پڑے ذرے ذرے سے زم زم پھوٹ پڑے، سلسبیل بہہ نکلی اور کوثر کی موجیں اُبلنے لگیںصحرائوں میں گلستان مسکرا اٹھے، سیرت النبی و میلاد النبی ۖایک ایسا قلزم ذخائر ہے جو بے حدو بے کنارہے اگر آسمان کی ہر کہکشاں ، کہکشاں کے ہر ستارے ،ستارے کی ہر لو، سمندر کی ہر موج، دریا کی ہر لہر، طوفان کے ہر دھارے، بادل کے ہر ٹکڑے، بارش کے ہر قطرے، جنگل کے ہر درخت، درختوں کی ہر ٹہنی، ٹہنیوں کے ہر پتے، پتوں کے ہر ریشے، پھولوں کی ہر پنکھڑی، پنکھڑی کی ہر دھاری، صحرا کے ہر ذرے اور ہوا کے ہر جھونکے کے منہ میں زبانی رکھ کر اسے مدحت آقائے کائنات پر مامور کر دیا جائے …اور… وہ صبح ازل سے لیکر شام ابد تک یہ فریضہ ادا کرتے رہیں تو بھی آپ کی حیات پاک کے کسی ایک پہلو کا اجمالی سا احاطہ بھی نہ کرپائیں وہ مقام ہے جہاں ہر کوئی اعلانِ عجز اور اظہارِ بے بسی کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔
لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعداز خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر
Ishaq
میرے استاذی المکرم حافظ شفیق الرحمن نے کیا خوب فرمایا ہے ”عشق کے قرنیوں میں پہلا قرنیہ احترام رسالتمآبۖ ہے جس دل میں یہ احترام نہیں وہ دل نہیں پتھر کی سل ہے بلکہ اس سے بھی بد تر ہے۔” سیرت و میلاد کا بیان انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایک حقیقت شناس عارف نے کہا تھا…باخدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار …یہ وہ ذکر لذیز ہے جسے ہونٹوں پر لانے سے قبل عشق و محبت کی سر مستیوں و سرشاریوں میں مجذوب شاعر کو کہنا پڑا تھا۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است گداز کے عنبر میں گندھے اور کیفیتوں کے عطر میں بسے شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ صدیوں سے گُنبدِ افلاک میں گونج رہے ہیں اور قرنوں گونجتے رہیں گے۔ بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ وآلہ یہ وہ نازک اور حساس موڑ ہے جہاں گولڑہ شریف کے سید زادے پیر مہر علی شاہ ایسی بلند پایہ ہستی بھی ششدرو ساکت رہ جاتی ہے۔
سبحان اللہ ما اجملک ما احسنک ما اکملک کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں یہ تو خیر بڑی ہستیاں تھیں یہاں تو غالب ایسے رندباش شاعر کو بھی اس امر کا کامل ادراک ہے کہ بارگاہِ رسالت مآب ۖ میں گلہائے تحسین پیش کرنا ہم ایسے کج مج بیانوں کا نصیب کہاں! غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم کہ آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
آج بھی انسانیت اگر راہ ہدایت اور شاہراہ کامرانی کی متلاشی ہے تو اسے فاران کی چوٹیوں پر طلوع ہونیوالے آفتاب کے سامنے اپنی جھولیاں گدا یانہ اور فقیرانہ پسارنا اور پھیلانا ہوں گی داتا کی نگری لاہور میں بعض گھرانے ایسے بھی ہیںجہاں پر منعقدہ محافل نعت میں فصاحت وبلاغت کے سانچے میں ڈھلاخوبصورت کلام باعمل اور اہل علم ثناء خواں حضرات اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتاہے کہ دلوںکا سارا میل کچیل دھل رہاہے اورروحوں کو فرحت اور تازگی محسوس ہورہی ہے اورہر سننے والے کی آنکھ سے آنسو ئوںکی برسات رم جھم کرتی برس رہی ہوتی ہے ہر شخص باوضو،صاف ستھرے کپڑے پہنے ،خوشبولگائے ادب واحترام کے ساتھ شریک محفل ہوتاہے اوریوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قدسی صفت لوگوں کی خاص جماعت ہے جوذکر رسولۖ کرنے اور سننے کیلئے عرش سے فرش نشیںہے اب بھی الحمدللہ ایسی انجمنیں، تنظیمیں اور گھرانے اس دھرتی پر موجودہیں جو اداب واحترام کے تمام تقاضے ملحوظ خاطررکھتے ہوئے محافل کا انعقاد کرتے ہیں جس سے روحوں کو ”سرشاری ” اور دلوں کی ویران کھیتوں کو آبیاری نصیب ہوتی ہے بے ادبی اور پامالی کے جھلستے صحرا میں اصلاح محافل نعت کی تحریک ”آبِ زُلال” کی حیثیت سے سامنے آئی ہے البتہ کچھ روز قبل برادر سید احسان گیلانی صاحب کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ انفرادی سطح پر مفتی محمد خان قادری صاحب اور اب مفتی ضیاء الحبیب صابری صاحب اور ضیا ء الحق نقشبندی صاحب بھی اپنے تئیں کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے لیکچرز بھی خالصتاً اصلاح محافل نعت کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ اور اصلاح احوال پر مبنی ہوتے ہیں احسان دانش نے انہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ بند ہوتے ہوئے بازار سے اور کیا چاہتے ہو
گذشتہ دنوں ایک رپورٹ نظروں سے گزری کہ عمرے ”نفلی حج اور حج بدل پر سالانہ دس ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ سارا کام حصول ثواب اور قرب الہٰی کیلئے ہوتا ہے حاجی اور عمرائی نیت بھی نیک رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ سارا سر مایہ غریبوں، محتاجوں ، بیماروں اور یتیموں پر خرچ ہو اور اجتماعی نظام کے تحت ہو اور اس سلسلہ میں ایک قومی مہم کی اشد ضرورت ہے تاہم نفلی حج اور عمرہ پر خرچ ہونے والی رقم جو خالصتاً نیکی اور فلاح کے جذبے کے تحت خرچ ہوتی ہے ضرور ناداروں پر خرچ ہونی چاہئیے سو حج اور ہزار عمرے ایک طرف اگر اس رقم سے کوئی بیمار شفایاب ہو جائے تو اس کی دعا ایک طرف نفلی حج اور عمرہ قبول ہوتا ہے یا نہیں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر کسی بیمار کی دعا کے رد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ دس ارب روپے جو سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
ایک ارب روپیہ ماہانہ اوسط نکلتی ہے اور تین کروڑ روپے روزانہ ان مریضوں کے علاج پر خرچ ہوں جو ایک مہلک مرض میں مبتلا ہیں جو ڈاکٹروں اور ہسپتال کا بل ادا کرنے سے قاصر ہیں تو اس سے بڑا عمرہ اور حج کیا ہو سکتا ہے یہی لوگ جو محافل نعت پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور انکی نیت بے شک نیک ہوتی ہے یہی رقم خود اپنے ہاتھوں سے مریضوں پر خرچ کریں ہسپتالوں میں جا کر ایسے نادار مریضوں کا حال معلوم کریں اور ان کے بل ادا کریں تو سچی بات ہے کہ جس اللہ و رسولۖ کو ملنے وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کا رخ کرتے ہیں اور محفل اس نیت سے سجاتے ہیں کہ ”ہمارے”گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یا رسول اللہۖ تو غریب و یتیم، مظلوم، بیمار کی خدمت کرنے سے اللہ اور رسولۖ انہیں اپنے گھر میں مل جائے گا۔ کسی سسکتے مریض ، کسی کراہتے بیمار اور کسی زندگی سے مایوس شخص کے پارہ پارہ دل پر پھاہارکھنے سے بڑھ کر حجِ اکبر اور کیا ہو سکتا ہے۔
دل بدست آور کہ حج اکبراست از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
Rain Money on Naat
محافل نعت کے انعقاد میں پیش پیش رہنے والوں کو شاید سرکار دو عالم رہبر انسانیت کی وہ حدیث یاد نہیں ہوگی؟ آپ نے فرمایا ”جو اپنے بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے سات خندق دور فرما دیتا ہے دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے ” ثناء خواں حضرات اور نقباء محفل پر نوٹوں کی بارش نچھاور کرنے والے شاید یہ بھو ل گئے ہیں کہ رحمت عالمۖ نے ہی ارشاد فرمایا”بھوکے کو کھانا کھلانا مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے” دو دو سو بینرز بنانے ، پوسٹرز شائع کرنے، پمفلٹ تقسیم کرنے اور محفل نعت میں آنے والے مہمانوں کو چادریں پہنانے والوں کا دھیان ادھر نہیں جاتا آپۖ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ” جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا پہناتا ہے تو جب تک پہننے والے کے بدن پر اس کپڑے کا ایک ٹکرا بھی رہتا ہے پہنانے والا اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے ” ایک اور جگہ آپ نے ارشاد فرمایا” مسکین کو اپنے ہاتھ سے دینابُری موت سے بچاتا ہے” حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔
”میرے پاس ایک سائل آیا میں نے اسے کچھ دینے کو کہا پھر بلایا اور دیکھا کہ اُسے کیا دیا آپ نے فرمایا ، تم یہی چاہتی ہونا کہ گھر میں جتنا آئے اور جتنا خرچ ہو اس کا تمہیں علم ہو فرمایا جی ہاں! فرمایا ”حساب کتاب کے پھیر میں نہ پڑو گن گن کر نہ دو ورنہ اللہ تمہیں بھی گن گن کردے گا” ام المؤمنین حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ رحمت عالم ۖ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپۖ خوف کی حالت میں کانپتے دل کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر آئے آپۖ نے انہیں اس واقعہ کے متعلق بتایا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کے چلے جانے کا خدشہ ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا بخدا! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کریگا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کو کما کر کھلاتے ہیں مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آفات اور مصائب کے موقعوں پر مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں”۔
محافل نعت کے انعقاد میں سرگرم رہنے والو! درج بالا حدیث پاک کے ایک ایک حرف کو حرزِ جان اور وردِ زبان بنالیجئے تاکہ معاشرہ حسن معاشرت کی تصویر پیش کرے ہمیں اپنے آس پاس اڑوس پڑوس میں نمودو نمائش کے ذاتی خول سے نکل کر دیکھنا ہوگا کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا، کوئی کسی گلی کی نکڑ پر دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں تو آہستہ آہستہ نہیں جا رہا؟ کسی غریب کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے حسرتوں کو دل میں لئے بوڑھی تو نہیں ہو رہی؟ کسی کے پاس کتابوں اور یونیفارم کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بچہ ”اوئے چھوٹے” کلچر کا شکار تو نہیں ہو رہا؟۔
اپنے ماتھوں پر محراب اور سروں پر عمامے سجانے والو! عوام الناس کو محراب و منبر سے خدمت انسانیت ہی کی طرف راغب کرنے والے درسِ قرآن و حدیث دو تاکہ معاشرے میں دکھی ، سسکتی اور بلکتی انسانیت کے زخموں پر کوئی تو مرہم رکھنے والا ہو! محافل نعت کا انعقاد بھی ضرور کروائیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بھوکی اور ننگی انسانیت کی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھیں یہی اسلام اور یہی معراج انسانیت ہے اور یہی رسولِ رحمت ،رہبر انسانیت ۖکی خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے ہمارا کام تھا خوابیدہ دلوں پر دستک دینا اب دیکھیئے کون کون اس پر لبیک کہتا ہے اور کس کس کے حصے میں خوش نصیبی لکھی جاتی ہے؟ کون خوش نصیب اس سعادت سے بہرہ مند ہوتا ہے؟ اور کس کس کے سر پر فلاحِ انسانیت کا تاج سجتا ہے؟۔
Nouman Qadir
تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی چیئرمین : ایوان ِ اتحاد پاکستان ، خطیب مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف ، اعوان ٹائون ، لاہور 03314403420