تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری ایک لولی لنگڑی سی اور قریبا پونے دو ہزار برس قبل کی ایک نا قابل اعتبار کہانی کی بنیاد پہ ہرسال 14 فروری کو اہل مغرب ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں کہ جس میں ایک پادری نے بادشاہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور مذہبی بندشوں کو توڑ کر ایک لڑکی سے ناجائز مراسم استوار کرلئے تھے اور اس قبیح جرم پہ اسیموت کی سزا دیدی گئی تھی ۔کئی صدیوں تک تو اس حوالے سے کچھ بھی نہ ہوا اور اس ‘عظیم کارنامے کی کوئی یاد تک نہیں منائی گئی۔
لیکن جب اہل مغرب نے خود کو مذہبی و اخلاقی بندھنوں سے یکسر آزادی کی راہ پہ ڈالدیا تو انہیں اس ضمن میں بطور تاریخی کمک اور حوالے کے، سینٹ ویلنٹائن کا یہ ‘کارنامہ یاد آگیا اور پھر اس روز کو مذہبی و اخلاقی قیود کو للکارنے والی علامت کے طور پہ منانے کا چلن اپنا لیا گیا ۔اب برسہا برس سے اہل مغرب اس ایک روز کو اپنے کسی ایسے پیارے یا پیاری کے لئے وقف کرتے ہیں کہ انہیں سارا سال نہ تو اسکی یاد آتی ہے اور نہ ہی وہ اپنا ‘قیمتی وقت ان رینگتے جذبوں کیلئے برباد کرتے ہیں اور اس ہی طرح انکا وہ پیارا یا پیاری بھی سارا سال بھلا انہیں کیوں یاد رکھے ،،،۔
پھر سب اسرار تو بند مٹھی میں ہوتا ہے اور سچی محبت کا سارا مزہ تو کسی قدر پوشیدگی میں ہے اور وہاں توفریقین کے تعلقات میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی، ادھر مشرق میں اک زلف کے پیچ و خم کھلتے کھلتے برسوں بیت جاتے ہیں ، اہل مغرب کے اس ‘ہنگامی رویے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل مغرب ترقی کی دوڑ میں اپنا سب کچھ دا پہ لگادیتیہیں اور بہت تیزرفتار بھاگتی دوڑتی زندگی پہ یقین رکھتے ہیں اور ایسے طرز زندگی میں صرف ‘ڈسپوزیبل اشیا ہی انکے لئے کافی ہیں فٹافٹ استعمال کیں اور پھینک دیں اور انکی محبتیں بھی اسی نوعیت کی ہوتی ہیں ، ایسی محبتوں میں نہ تو ہجرو فراق کی کلفتیں ہیں اور نہ ہی کوچہ یار میں داخلے کی صعوبتیں ، پھر وفا کا مان اورعشق کے امتحان کا کیا مذکور۔
A Parent’s Love
لیکن ہم مشرق والے تو ایک ہی وقت میں مختلف نوعیت کے پیار کی کئی کئی ریشمی ڈوروں سے بندھے ہوتے ہیں کوئی ڈوری اگر محبوب کے پیار کی ہے تو کوئی ماں وباپ کے پیار کی اور کوئی بہن کے پیار کی ہے تو کوئی بھائی کے پیار کی اور کوئی اولاد کے پیار کی اور عزیزوں و دوستوں کے پیار کی ڈوریاں ہیں سو الگ ہیں ۔۔۔۔ اور رشتوں کی یہ سب ڈوریاں سبھی بندھن بہت قیمتی ہوتے ہیں کہ جنکی اپنے وجود سے لپٹ کو ہم ہر روز ہر لمحے ہر آن محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ ان سب ڈوریوں کے ایک سرے پہ حق کا احساس ہے تو تو دوسرے سرے پہ فرض کی گرفت ،،، یہ ریشمی ڈوریاں سال کے کسی ایک دن نہیں ہرلمحے اپنی موجودگی کا اپنے لمس کا ہمیں احساس دلاتی رہتی ہیں ،،، مغرب میں یہ سب رشتے تو کبھی کے آٹ آف فیشن ہوئے۔
وہاں تو بہتوں کو اپنے باپ کا نام ہی معلوم نہیں ہوتا تو پھر اسکی نسبت سے باقی اور رشتے کہاں سے پکڑ میں آسکتے ہیں انکے سارے رشتیاب کاروباری نوعیت اختیار کرچکے ہیں ،،، زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال باہر کرتے ہیں ورنہ انکے رہائشی کمروں کا کرایہ اور خوراک کی قیمت طلب کرتے ہیں ۔۔۔ کینیڈا سے ہماری اک عزیزہ صرف اسلئے واپس پلٹ آئیں کیونکہ انہوں نے وہاں کی سخت ترین سردی میں بہت سے بچوں کو اپنے گھر کے باہر دروازے پہ سوتے دیکھا کہ جنہیں بالغ ہوتے ہی والدین نے گھر سے باہر کردیا۔
Old Homes
لیکن وہ ابھی ذہنی طور پہ اسکے لئے آمادہ نہ تھے ،،، اور وہاں کی بلدیہ کا ایک خصوصی ٹرک صرف اسی کام پہ مامور تھا کہ رات گئے ایسے بچوں پہ کمبل ڈالتا پھرے ،،، اور جن گھروں میں ماں باپ بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے بڑھاپے کی عمروں کو پہنچنے لگتے ہیں تو ایسے روکھے و کاروباری ماحول و تربیت کے زیر اثر وہ انہیں اولڈ ہومز میں ڈال کر اپنی جان چھڑاتے ہیں۔
لیکن یہاں ہم اہل مشرق کے خمیر میں تو رشتوں کا پیار گندھا ہے وہ تو ایمان کے بعد ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے ،،، ہمارے یہاں تو والدین اپنی اس اولاد کیلئے بھی ویسے ہی فکرمند و پریشان رہتے ہیں کہ جو خود کئی بچوں کا باپ بن چکا ہوتا ہے ، یہاں تو گھر دیر سے واپس آنے والے ہر فرد کیلئے کتنی آنکھیں راہ تکتی اور تسبیحات کرتی دکھتی ہیں ،،، ماں باپ ،بہن بھائی اور اولادیں ہی نہیں اہل محلہ اور بھی بہتیرے رشتے اور تعلق والے اسی حلقہ محبت و شفقت کا حصہ ہوتے ہیں۔۔۔۔
تو پیار کے اتنے ڈھیر سارے رشتوں اور بندھنوں کی موجودگی میں اور ہر آن پیار کی برستی برکھا میں ہم لوگ بھلا کسی ایک دن کسی ویلنٹائن ڈے کے محتاج کیوں ہونے لگے ۔۔۔ وہ بھی صرف ایک ہی نوعیت کے تعلق کے ،،، جبکہ ہمارے یہاں کا پیار ایک مجموعی محبت کی بڑی سی تصویر کا محض ایک حصہ ہوتا ہے نہ کہ کل تصویر،،، یہی تو وہ دھن دولت ہے کہ جو ہمارا سرمایہ ہے اور اہل مغرب اس معاملے میں کورے مفلس ہیں اور نرے پھکڑ ،،،، ہمیں مان ہے کہ ہمارا ہروز ہمارا ویلنٹائن ڈے ہے اور ہمیں کسی ایک دن کسی ایک کو بھولا بسرا پیار یاد دلانے کی مطلق ضرورت ہی نہیں ہوتی اور ہمیں جینے کی اپنی اسی ادا پہ فخر ہے۔