تحریر: زاہد محمود سیاسی قیادت مخلص نہ ہونے کے باعث پاکستان دن بدن افراطزر، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی وگرانی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ پے در پے بحرانوں میں اس وقت چینی کا مصنوعی بحران، بیرونی بینکوں سے لئے جانے والے اربوں ڈالرز کے قرضے، اداروں کی لوٹ سیل اور سرایت کر چکا کرپشن کا ناسور شامل ہے۔ مزید قرض لینے کے لئے ور لڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے باقاعدگی سے معاشی پلان ملتا ہے۔ سب کو یاد ہو گا یہ وہی سیاسی ٹولا ہے جو کہ جنرل الیکشن کے دنوں میں اقبال کے شعر (اے طائرِلاہوتی ٠٠٠) پڑھتے ہوئے کشکول توڑنے کی بات کرتا تھا۔ معاشی پلان میں دئیے گئے ٹیکس کے حصول کابوجھ براہِ راست لوئر اور لوئرمڈل کلاس پرگرتا ہے۔
ملک میں لوئرکلاس جنگل میں آگ کی طرح بڑھ رہی ہے ۔مطلوبہ ریونیو ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے عوام کو ناجائز ٹیکس کے زہر یلے ٹیکے لگائے جا تے ہیں تو سرمایہ داروں کو سبسڈیز اور دیگر مراعات سے نواز کر بوسیدہ نظام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سبھی سرمایہ دار بزنس مین ہمارے سیاستدانوں کے قریبی احباب ورشتے دار ہیں (غرضیکہ ان کا مفاد جینا مرنا اکٹھا ہے) ۔ لیکن غیر ملکی بینکوں کی سودی معاشی پالیسیوں کا بوجھ بالواسطہ یا بلا واسطہ درمیانے اور نچلے طبقے پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ مٹھی بھر سیاسی سرمایہ دا ر اور رشتے دار نہ صرف ٹیکس نیٹ سے کو سوں د ور ر ہتے ہیں بلکہ ان کے اندرون و بیرونِ ملک اثاثے اور کاروبار بھی بڑھ رہے ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس فرسودہ، سودی و استحصالی نظام کی تباہ کاریاں عوام کی اکثریت کو غربت کی انتہائی سطح کی جانب دھکیل رہی ہیں۔دسمبر 2015 میں آئی ایم ایف کے دباؤ سے روز مرہ استعمال کی اشیاء پر40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیے گئے۔جس کے اثرات 25 سے زائد بنیادی اشیائے ضرورت مہنگا ہونے کا سبب بنے۔انہی دنوں حکومت کی جانب سے شوگر ملز مالکان کو چینی کی ایکسپورٹ کا ہدف پورا کرنے کی مد میں 6 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ ملز مالکان کو 13 روپے فی کلو تک سبسڈی دے کر مارچ 2016 تک 5 لاکھ ٹن چینی بر آمد کرنے کا یقین دلایا گیا۔ پی آئی اے سمیت بیشتر قومی ادارے خسارے میں جانے کے باعث ان کی نجکاری سے متعلق بڑے فیصلے کیے گئے۔
Sugar Mills
سبسڈی کی سرکاری تا ئید کے بعد شوگر ملز مالکان کی تو جیسے چاندی ہوگئی۔ بلیک مارکیٹنگ کے بادشاہ شوگر مافیا کی پھرتیاں بھی قابلِ دید نظر آتی ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کے بیٹھے بیٹھا ئے اربوں روپے بڑھ گئے۔ چینی کی رسد میں کمی ہونے پر لوکل مارکیٹ میں چینی کے فی کلو ریٹ میں3سے5 روپے تک اضافہ ہوا۔عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گرنے کی وجہ سے پاکستانی کمپنیز کو چینی بر آمد کرنے میں 13 روپے خسارے کا سامنا تھا جس کا ریلیف سبسڈی کی صورت میں دیا گیا۔اس کے ساتھ خام مال کی در آمد پر ریگو لیٹری ڈیوٹی کا اضافی بونس بھی مختص کیا گیا۔
آئی ایم ایف کے کہنے پر 2لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کا ہدف بڑھا کر 5لاکھ ٹن کر دیا گیا سب جانتے ہیں پاکستان میں شوگر ملز چند سیاسی سرمایہ دار وں کی ملکیت ہیں۔یقیناًسبسڈی کی ر قم’ ایمان داری’ سے مشترکہ طورپربا نٹی جائے گی۔ عالمی منڈی سے اگر چینی درآمد کی جائے تو 40روپے تک پاکستان میں دستیاب ہو سکتی ہے۔لیکن ایسا ہونے سے ان کا ناجائز منافع، سبسڈی پیکج اوردیگر مراعات بند ہو سکتی ہیں۔ کیا منافع خور شوگر مافیاایسا کبھی ہونے دیتا؟ اس پرستم ظریفی یہ کہ سیاسی حکمران پی آئی اے کو اونے پونے داموں بیچ کرایک اور بڑے حساس قومی ادارے کو مٹانے کے درپے ہے کسی بھی ملک کی ائر لائن ایک بڑا ادارہ ہونے کے ساتھ حساس نوعیت کا ملکی سرمایہ تصور کی جاتی ہے۔ ایک عرصہ تک پی آئی اے بہترین سروس کی بدولت دنیا بھر میں نمایاں ساکھ بنائے ہوئے تھی۔
ہماری بد نصیبی کہ وہ فوجی دور تھا(اب تو ہم بخوبی جان چکے کہ اچھی سے اچھی آمریت سے بدترین جمہوریت زیادہ بہتر ہے) ۔ لیکن آج پی آئی اے کو ناکارہ ڈیکلئیر کر کے قومی اداروں کی فہرست سے نکالنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔یوں کہہ لیجیے انتظامات ہو چکے ہیں۔کوئی دکھ نہیں۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب وفاقی کابینہ کے ایک وزیر کو ذاتی ائر لائن کامیابی سے چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس ائر لائن کا شمار درمیانے درجے میں چلنے والی ہوائی کمپنیز کی بہترین کیٹگری میں ہوتا ہے۔ لیکن وزیر موصوف پی آئی اے جیسے بڑے قومی ادارے کوبکتا دیکھ تو سکتے ہیں مگر اسے خسارے سے نکالنے کی کوئی تجویز پیش کیوں نہیں کرسکتے؟ حکمرانوںکے نجی بزنس تونہایت کامیابی سے چل رہے ہیں لیکن جب سٹیل مِل کی بات آتی ہے تو سالانہ اربوں روپے کا نقصان نظرآنے لگتا ہے۔
قومی خزانے کو خسارے سے بچانے کے لئے اسے بیچنا کیوں ضروری سمجھا جا تاہے؟ جو ادارے پچھلی دہائی(آمرانہ دور) تک کامیابی سے چلتے ہوئے منافع بخش تسلیم کیے جاتے تھے چند سالوں میں وہ بد ترین خسارے میں کیسے چلے گئے؟ اداروں کو بچانے اور چلانے کی بجائے آپ انہیں بیچ کر کس مسئلے کا حل نکالناچاہتے ہیں؟ اگرآپ ادارے کامیابی سے نہیں چلا سکتے تو پھر تسلیم کریں آپ ادارے چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ قومی اداروں کی لُوٹ سیل میں سیاسی سرمایہ دار مرضی کے ادارے کوڑیوں کے بھاؤخرید رہے ہیں۔ کچھ دن قبل ایک وفاقی وزیر نے اداروں کی نجکاری کا سبب کرپشن قرار دیا۔ موصوف کی قومی خزانے کے ضیاع اور کرپشن سے بچاؤ کی اس تجویز اور دلیل کو سامنے رکھا جائے تو اس نیک کام کا آغاز تو پھر پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے۔ جب کرپشن کی جڑ ہی ختم ہو جائے گی تو قومی ادارے بکنے سے بھی بچ جائیں گے۔ لیکن یہاں اپوزیشن کا کردار معنی خیز نظر آتا ہے۔
فرینڈلی اپوزیشن کے فارمولے پر عمل کرتی اپوزیشن اداروں کی تباہی میں حکومت کے ساتھ برابر کی شریک نظر آتی ہے ۔ کراچی میںکرپشن کے خلاف رینجرزکے کامیاب آپریشن او ر اب ان کادائرہ کار پنجاب تک بڑھا یا جاناخوش آئندبات ہے ۔سندھ میںاس آپریشن سے کافی حد تک انتشار پسندی میں کمی واقع نظر آئی۔ لیکن اب خبریں آ رہی ہیں اس انٹی کرپشن آپریشن میں بھی جانبدارانہ طور پر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کا احتسابی معیار ہے۔
Unemployed
ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں نئے وسائل تلاش کرتی ہیں، قومی اداروں کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھائی جاتی ہے سائنس و ٹیکنا لوجی میں تجربات کیے جاتے ہیں، بڑے پرو جیکٹس میں لاکھوں افراد کے لئے روزگار پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ،جہاں قومی اداروں کی تعداد کم سے کم کی جا رہی ہے۔ انہیں بیچ کربر سرِ روزگار عوام کو بے روزگار کیا جا رہا ہے۔ بے روز گاری بڑھنے سے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ماسٹرز،ایم فلِ کی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے لاکھوں بے روزگار نواجون چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈنے کے لئے سارا دن سڑکوں پر جوتے چٹخاتے نظر آتے ہیں جبکہ سیاسی ترجیحات ادارے کرپشن سے پاک کرکے چلانے کی بجائے انہیں مٹانے کی ہے۔
ملکی ترقی کے لئے یہ معاشی پالیسیاں ہمیں آگے لے جا نے کی بجائے پیچھے لے جا رہی ہیں۔گزشتہ سال سے اب تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر کم ہونے سے عالمی کساد بازاری میں نمایاں مندی دیکھنے کو ملی اور پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات بھی اشرافیہ تک ہی محدود رہے۔ملک میں تیل کی قیمت بڑھے تو اشیاء کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ جا تی ہیں لیکن ایک چوتھائی سے زیادہ تیل کی قیمت کم ہونے پر بھی مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے سرمایہ داروں کے ذاتی کاروبار کا خسارہ پورا کرنے کے لئے عوام پر بوجھ ڈال کر سبسڈی دے دی جاتی ہے اور جس چیز کی قیمت میں کمی ہونے سے عوام کو فائدہ مل رہا ہو عوام کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ غریب عوام کا خون نچوڑ کران سرمایہ داروں کو سبسڈی دینا صریحاََعوام کے حقوق پرغاصبانہ قبضے کے مترادف ہے۔ سبسڈی کی ضرورت فاقوں پر مجبور غریب عوام کو ہونی چاہیے۔ سرمایہ دار تو پہلے ہی اپنے حصے کے ٹیکس کا بوجھ غریب عوام پر ڈالے ہوئے ہیں۔
ستم در ستم یہ کہ سبسڈی سے ان شوگر ملز مالکان سے لے کر ملکی ہول سیل ڈیلرز تک سب کے وارے نیارے ہو گئے تیرہ روپے فی کلو دی جانے والی سبسڈی سے ذخیرہ اندوز شوگر مافیا کودونوں ہاتھوں سے لوٹتا دیکھ کر عوام کی حالتِ زار قابلِ ترس ہوتی نظر آ رہی ہے سبسڈی کا لالچ ایک طرف ذخیرہ اندوز شوگر مافیا کو بھر پور فائدہ پہنچا رہا ہے اور لوکل مارکیٹ میں چینی کی قیمت بھی مرضی سے وصول کی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں چینی کے مصنوعی بحران پیدا کرنے کے واضع خطرات نظر آ رہے ہیں۔غربت و افلاس میں بھوک سے مرتی بے بس عوام کا آپ جتنا مرضی خون چوسیں جتنے مرضی ناجائز ٹیکس لگائیں آپ کو پانچ سالہ جمہوری دور مکمل ہوتے ہی عوام کی عدالت میں حساب دینا پڑے گا۔انشائاللہ اس دن آپ کا گریبان اور عوام کا ہاتھ ہو گا۔