کیا احتساب ہو گا

 Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب نے بالآخر ” کھڑاک” کر ہی دیا۔ اپنی جلاوطنی سے لے کر اب تک تو وہ ”ٹھنڈے ٹھار” ہی نظر آتے رہے اور ہم بھی اس نواز شریف کو تقریبا تقریبا بھول ہی چکے تھے جو بینظیر بھٹو کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ جانا بھی پسند نہیں کرتے تھے حالانکہ کسی بھی وزیرِاعظم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر جانا ہر وزیرِاعلی کا اخلاقی فرض ہوتا ہے۔ 1988ء سے 1998ء تک میاں نواز شریف اوربی بی بینظیر ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک ہی قرار دیتے رہے یہاں تک کہ پرویز مشرف نے دونوں کا ”مکو ٹھَپ” دیا۔

پرویز مشرف نے کہا کہ اب دونوں کبھی پاکستان نہیں آسکیں گے لیکن دونوں ہی آئے اور ایک دفعہ پھر سیاست میں ”اِن” ہوئے۔ بینظیر این آراو کی چھتری تلے اور میاں نواز شریف میثاقِ جمہوریت کے سہارے جو بعد میں”مذاقِ جمہوریت” ثابت ہوا۔ بینظیر بھٹو تو ابدی زندگی کی طرف لوٹ گئیں اوراللہ سلامت رکھے میاںنواز شریف میدانِ سیاست میں اکیلے رہ گئے۔ تب ”کرپشن کنگ” کو بھی ایوانِ صدر میں رہائش کا موقع ملا۔ وہ جسے کبھی مسٹرٹین پرسنٹ اور کبھی مسٹرسنٹ پرسنٹ کا خطاب ملا کرتا تھا، وہی ملک کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے۔میاں شہباز شریف اپنی انگشتِ شہادت زورزور سے ہلاتے اور مائیک توڑتے احتساب احتساب کی ”بڑھکیں” تو لگاتے رہے، سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے بھی کرتے رہے لیکن ہوا ”کَکھ” بھی نہیں۔ میاںنواز شریف صاحب البتہ اُس دورمیں بھی خاموش اور”ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویربنے رہے۔

پھر کپتان صاحب کی تحریکِ انصاف آندھی طوفان بن کر اٹھی اور سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچاگئی۔ کپتان صاحب کابَس ایک ہی نعرہ کہ پیپلزپارٹی اورنواز لیگ دونوں ہی کرپٹ۔ کپتان صاحب کی ایک بات توبہرحال تسلیم کرنی پڑے گی کہ دونوںبڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان احتساب کے معاملے میں ”اندر کھاتے” مُک مکاتھا کیونکہ ہم نے دیکھا کہ آصف زرداری صاحب نے اپنے پورے دورِحکومت میں قومی احتساب بیوروکو عضوِ معطل ہی رکھااور نیب کے ہرچیئرمین کوبے بس۔ کپتان صاحب کو خیبرپختونخوا کی حکومت ملی تو انہوں نے اِس صوبے میں آزاد احتساب کمیشن کانعرہ بلند کر دیا۔

Pervez Khattak

Pervez Khattak

سونامیے ہمیشہ سینے پھلا کر دعوے کرتے رہے کہ پختونخوامیں احتساب کا ایسا نظام متعارف کروادیا گیاہے کہ اب اِس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا خواہ کوئی وزیرشزیر ہویا وزیرِاعلیٰ لیکن ہواوہی کہ ”کھودا پہاڑ ،نکلاچوہا”۔ جب احتساب کمیشن کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) حامدخاں نے بلاامتیاز کارروائیاں شروع کیں توخیبرپختونخوا حکومت کی چیخیں نکل گئیں۔ ہمارے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک المعروف ”تیلی پہلوان” نے احتساب کمیشن کے پَر کاٹنا شروع کیے اوربالآخر اُسے ”ٹُنڈ مُنڈ” کردیا جس پرچیئرمین احتساب کمیشن مستعفی ہوگئے لیکن جاتے جاتے یہ ”کھڑاک” بھی کرگئے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے احتساب کی دوکان پرتالے لگادیئے ہیں۔

نواز لیگیوں نے بغلیں بجائیں کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خون نکلا

جب پرویز خٹک صاحب سے صحافیوں نے احتساب کمیشن کے اختیارات کو نقطۂ انجماد تک لانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ احتساب کمیشن افسران کی راہوں میں کانٹے بچھا رہا تھا جس کی بنا پر ترقی کا پہیہ جام ہو گیا۔اب یہی کچھ ہمارے وزیرِاعظم صاحب فرمارہے ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب نیب پرگرجے اورکھل کربرسے بھی ۔مؤقف وہی پرویزخٹک والاکہ نَیب ترقی کاپہیہ روکنے کی کوشش کررہی ہے اور افسران نَیب کے خوف سے کوئی کام کرنے کوتیارنہیں۔ نیب دوسروںکی پگڑیاں اچھا لنا بند کرے۔ اِس سے پہلے پیپلزپارٹی بھی احتساب کو انتقام کے ترازومیں تولتی اوریہ ”رَولا” ڈالتی رہی کہ اُسے سیاسی انتقام کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُس بیچاری ،مصیبت کی ماری کے تواکثر رہنما ”پھُٹا” مارکے ”پھُر” ہوگئے اور باقی بچے ہماری پچھلی صدی کے سیّدقائم علی شاہ جنہیں نیندسے ہی فرصت نہیں وہ بیچارے بھلاکیا خاک کرپشن کریں گے۔

NAB-Accountability

NAB-Accountability

اب پیپلزپارٹی کے آصف زرداری صاحب سمیت چیدہ رہنماسات سمندر پاربیٹھے قوم کامُنہ چڑارہے ہیں کہ ”کَرلو جو کرنا”۔میاںنواز شریف کے اِس کھڑاک کے بعد یقیناََ پیپلزپارٹی کے سینے میںبھی ”ٹھنڈ” پڑگئی ہوگی کہ چلواِس حمام میںسبھی ”ننگے”تو ہوئے۔ قمرالزماں چودھری کو توپیپلزپارٹی اورنوازلیگ نے متفقہ طورپر چیئرمین نَیب بنایاتھا ۔اب اگروہ بھی ”اندرکھاتے” دیانتدار نکلے تواِس میںقصور کِس کا؟۔ چاہیے تویہ تھاکہ دونوںبڑی جماعتیں مل کرکوئی ایسابندہ تلاش کرتیں جو ہمیشہ اُن کے درِنیاز پرجھکا رہتالیکن اُن کی نگاہِ انتخاب قمرالزماں چودھری پرپڑی۔ یہ تو بالکل ویساہی ”ہَتھ” ہواجیسا ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹواور پرویزمشرف نے میاں نواز شریف کے ساتھ کیا تھا۔

بھٹو صاحب چن کرایسا بندہ سامنے لائے تھے جودیواروں کو بھی سلیوٹ کرتاتھا لیکن اُسی نے بھٹوصاحب کوعَدم کی راہ دکھائی۔اسی طرح میاںصاحب نے بھی جونیئرموسٹ پرویزمشرف کاانتخاب کیاتاکہ سکون سے حکومت کے مزے لوٹ سکیں لیکن اُنہیں بھی اپنے غلط انتخاب پر جلاوطنی کا مزہ چکھنا پڑا۔دراصل ہمارے رہنماؤںکا انتخاب کبھی درست نہیں ہوتا۔اگروہ ہم جیسے کسی ارسطوانہ ذہن رکھنے والے کی خدمات حاصل کریںتو شاید وہ کچھ بہتر انتخاب کرسکیں ۔ویسے قمرالزماں چودھری کاانتخاب کچھ ایساغلط بھی نہیں تھا۔ وہ بیچارے تو ”ٹھنڈے ٹھنڈے” ہی چل رہے تھے لیکن ہمارے مقتدرحلقوں کواحتساب کی جلدی ہی بہت ہے۔

اُنہوں نے قمرالزماں چودھری کے سامنے ایسا پنڈورابکس کھولا اور ایسی ایسی فائلیں سامنے رکھیں کہ چودھری صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انہیں احتساب کی تلوار سونت کر میدان میں نکلنا پڑا۔ قوم کو تو بہرحال ایساہی چیئرمین چاہیے جو بلاامتیاز احتساب کرے اور مجبورو مقہور قوم کی رگوں سے نچوڑے ہوئے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لے لیکن یہ شاید ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو قبول نہیں۔اب وہ تینوں اِس معاملے میں ایک صفحے پراور شنید ہے کہ اونچے ایوانوں میں آئینی ترمیم کے ذریعے نَیب کے پر کاٹنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ توکیا ہم سمجھ لیں کہ ”سارے رَل کے قوم نوں پے گئے نیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر