تحریر : رانا اعجاز حسین گزشتہ دنوں آرمی چیف پاکستان جنرل راحیل شریف نے اقتصادی راہداری منصوبے کے لئے قائم کئے گئے سپیشل سیکیورٹی ڈویژن کا دورہ کیا جہاں پر انہیں سیکیورٹی امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے کے خلاف شروع کی گئی مہمات سے آگاہ ہیں۔ پاک فوج منصوبے کی حفاظت کے لئے پرعزم ہے،اقتصادی راہداری منصوبے کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، سی پیک منصوبہ عوام کی زندگی بدلنے کی صلاحیت ر کھتا ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے پرامن ماحول فراہم کرنا ضروری ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سٹیک ہولڈرز سے مل کر منصوبے کی تکمیل کے لئے اقدامات کئے جائیں گے، اس منصوبے سے نہ صرف پاکستان، بلکہ پاکستانی قوم کی حالت بھی بدلے گی، پرامن ماحول سے ہی تمام منصوبے پائیہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔”
الحمد للہ پاکستان کی اعلیٰ سول و فوجی قیادت مکمل طور پر جذبہ حب الوطنی کے ساتھ ساتھ جذبہ تعمیر وطن سے سرشار ہے، اور ملک دشمن ممالک اور عناصر کی گہری چالوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ قدرت کا انعام ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ کئی دوسرے ممالک کو تجارتی راستے مہیا کر سکتا ہے۔ جبکہ برادر دوست ملک چین اس وقت دنیا میںایک بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھر رہا ہے اور خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ چین 2020ء تک دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہو گا۔ پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا بلکہ یہ کوریڈور پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن بھی ہو گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری صرف پاکستا ن ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔عالمی ماہرین اقتصادیا ت کے اندازے کے مطابق اس منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ء کے تقریباً تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کی بدولت مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباً نصف آباد ی اس منصوبے کے مثبت اثرات سے فیض یاب ہوگی۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اکنامک کوریڈور کا معاہدہ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کی تاریخ کا سب سے زیادہ اہم معاہدہ ہے۔
Pakistan and China
اس منصوبے کے آغاز کے بعداب پاکستان کی معاشی خوشحالی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا ترقیاتی پروگرام ہے جس کے تحت جنوبی پاکستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہاہے۔چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں۔اس لئے اس منصوبہ پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے مابین ہونے والی تجارت پاکستان کے راستے سے ہونے لگے گی اور اکنامک کوریڈور ان ممالک کی تجارت کیلئے مرکزی دروازے کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ بالخصوص مڈل ایسٹ سے برآمد ہونے والا تیل گوادر کی بندر گاہ پر اترنے لگے گا کیونکہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔
جبکہ اس تیل کی ترسیل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے سے چین کو ممکن ہوسکے گی۔ خلیج کے ممالک کا ساٹھ فیصدی تیل چین کو برآمد کیا جاتا ہے جو اس وقت 16000کلو میٹر کا طویل راستہ طے کرکے چینی بندرگاہوں تک پہنچتا ہے۔ جبکہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 2500 کلو میٹر رہ جائے گا۔اور یہ راستہ نہ صرف مختصر بلکہ محفوظ اور آسان بھی ہوگا۔ اس طرح پاکستان کو وسائل روزگار کے حصول کے علاوہ عالمی راہداری کے طور پر خطیر زرمبادلہ کا مستقل موقع بھی میسر آجائے گا۔عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اکنامک کوریڈور منصوبے سے ایشیاء میں علاقائی تجارت و سرمایہ کاری کے بند دروازے کھل جائیں گے۔ اور اطراف میں واقع تمام ممالک کو معاشی ثمرات حاصل ہونگے اور یوں دنیا کی سب سے بڑی منڈی وجود میںآئے گی جو علاقائی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگی۔
پاکستان اپنی سرحدوں کو کاشغر کی مصنوعات کیلئے مختصر ترین رسائی اور عبوری راہداری کے طور پر پیش کرچاہتا ہے۔اس ضمن میں کراچی پورٹ قاسم کی بندرگاہ کے علاوہ چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادر پورٹ ایک اضافی دروازہ ہوگی۔یہ امر مذید خوش آئند ہے کہ چین ، اپنے مغربی علاقے میں ”کاشغر سپیشل اکنامک زون ” تشکیل دے رہا ہے جو چین کو مغربی جانب سے وسطی ایشیاکے ساتھ اور جنوب میں جنوبی ایشیا کے ساتھ بھی جوڑ دے گا۔ چین نے گوادر میں متعدد میگا پراجیکٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو دونوں ممالک کیلئے انتہا ئی فائدہ مندثابت ہونگے۔ چین ، گوادر کو پاکستان، ایران، وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خود چین کیلئے ایک مرکزی بندرگاہ بنانے کا خواہا ں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے گوادر کی جلد آباد کاری کیلئے سال 2017ء تک مختلف پراجیکٹ کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
Gwadar Port
ان پراجیکٹس میں کوئلے،سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔پاکستان کو گوادر پورٹ کے عمل میںآنے سے کثیر وسائل روزگار کے علاوہ اربوں ڈالر کی آمد ن حاصل ہوگی۔ چین ، گوادر میں شنگھائی فری ٹریڈ زون کے ماڈل کو دہرانا چاہ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے اپنی اقتصادی اور سماجی اصلاحات کو آزمانے کیلئے ابتدا میں چین کے اندر بھی سب سے پہلے شنگھائی فری ٹریڈ زون کا تجربہ کیا جو کہ چین کی اقتصادی ترقی کیلئے بے حد کامیاب ثابت ہوا۔شنگھائی فری ٹریڈ زون میں مختلف صنعتی و تجارتی شعبوں کیلئے متعدد رعائتیں اور سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔بیرونی سرمایہ کاروں کووہاں تین ماہ کے اندر پندرہ فیصدی سرمایہ لگانے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا ۔ گوادر کے فری ٹریڈ زون میں بھی بیرونی سرمایہ کاروں کوایسی ہی رعائتیں فراہم کی جائیں گی، جس سے گوادر بیرونی سرمایہ کار ی کا گڑھ بن جائے گا۔
توقع ہے کہ سپیشل اکنامک زوون، فری ٹریڈ زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تشکیل کے بعد گوادر میں پاکستان کی ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کیلئے لاتعداد وسائل روزگار پیدا ہونگے جس سے یہاں عوام کے طرز زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔سرمایہ کاری کے چینی منصوبوں کے مطابق گوادر کی ترقیاتی سرگرمیوں38 فیصدی حصہ بلوچستان کا ہے۔ ایک منصوبے تحت اس ضمن میں مقامی لوگوں کو پیشہ وارانہ تربیت اور ارزاں قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے تاکہ صوبے میں چھوٹے کاروباروں کا ایک ایسا جال بچھ سکے جو بڑی صنعتوں کیلئے وینڈر انڈسٹری کا کردار انجا م دے سکے۔پاک چین اقتصادی راہداری سے ملکی ترقی کا یہ منصوبہ شروع ہی سے پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں اٹک رہا ہے۔ملک دشمن عناصر اس منصوبے کے خلاف گہری چالوں میں مصروف ہیں۔
مقام شکر ہے کہ پاک فوج کے سربراہ ان سب حالات سے باخبر ہیں جن کا اظہار ان کے ان الفاظ سے ہوتا ہے ”سی پیک کے خلاف شروع کی گئی مہمات سے آگاہ ہیں” جبکہ دوسر ی جانب برادر دوست ملک چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے عالمی تناظر میں رونما ہونے والی کسی بھی تبدیلی کے باوجود چین پاکستان کے سا تھ روائتی دوستی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاہدوں پر پورا اترے گا۔ اسی طرح پاکستان بھی چین کے ساتھ دوستی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے۔لیکن بدلتے ہوئے جغرافیائی اور دفاعی ماحول میں دونوں ملکوں کو متعدد علاقائی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے۔لہٰذایہ صدائے وقت ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت پاک چین دوستی کی تاریخی روایات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں، تاکہ ترقی کا یہ سفر جاری رہ سکے۔
Rana Ijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033