تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی ایک ہفتہ ہو گیا ہے گاہے گاہے مجھے ضلع لیہ کے مختلف شہروں چوک اعظم، لیہ شہر، فتح پور، کروڑ لعل عیسن، جمن شاہ، کوٹ سلطان، بھاگل، چوبارہ سے چند ایک درد مند احباب ای میلز بھیج رہے ہیں اور کہا ہے کہ ضلع لیہ میں پولیس گردی اور بڑھتے ہوئے شراب نوشی کے کلچر پر کچھ عرصہ پہلے آپ نے کالم لکھا تھا جسے عوام نے بہت پسند کیا تھا مسائل جوں کے توں ہیں براہ کرم پھر قلم اُٹھائیں ۔۔۔۔۔۔۔ای میلز میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”پولیس ٹائوٹ ،DCO ٹائوٹ ، DC ٹائوٹ،DPO ٹائوٹ، وڈیروں کے منشی، خوشامدی، سرکاری ملازم نام نہاد صحافی وڈیروں اور بیوروکریسی کے تلوے چاٹتے رہیں گے عوام کے مسائل حقیقی معنوں میں اُجاگر نہیں ہوں گے ”آپ ”فکرِ فردا ” کے ذریعے ضلع لیہ کے مسائل اجاگر کریں۔
پیارے پڑھنے والو : پولیس گردی ، شراب نوشی کلچر کے ساتھ ساتھ اب تو ڈکیتی کا کلچر بھی عام ہو گیا ہے ، بھتہ خوری کی لت کراچی سے سفر کرتی ہوئی لیہ بھی پہنچ چکی ہے آئے دن چلتے چلتے راہ گیروں سے اُن کی جمع پونجی چھین لینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ، پولیس بھنگ پی کے سو رہی ہے یا پھر اُس نے سردیوں میں ”ستو ” پی رکھے ہیں ہمارے ضلع لیہ کے ”چند ” نادان صحافی چند ٹکوں کی خاطر آئے روز سوشل میڈیا پر نکمی اور عوام کے مسائل سے نا آشنا بیورو کریسی کی ”خوشامد ” کرتے رہتے ہیں اُن کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے کبھی ڈی پی او ، ڈی سی او اور کبھی کبھی کسی نا لائق ایس ایچ او کی من گھڑت تعریف کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں۔
انجمن تاجران بھی محض فوٹو سیشن میں لگی ہوئی ہے جب تک انجمن تاجران کے ”تا حیات ”قائدین مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کی چھتر چھائوں تلے خوشامدی گیت گاتے رہیں گے تاجران کے حالات کبھی بھی نہیں سُدھر سکتے ۔۔۔۔۔جب سے ہم نے شعور کی دہلیز پار کی ہے اُس وقت سے ہم نے ”پولیس کا ہے فرض ، مدد آپ کی ” کا نعرہ سُن رکھا ہے مگر پولیس دُکھی اور لاچار انسانیت کی خدمت کی بجائے معاشرے کے چوروں ،وڈیروں ،جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ،زر داروں ،زور داروں ، ، رسہ گیروں ، ڈاکو ئوں ، منشیات فروشوں ، دلالوں ، بد معاشوں کی ”خدمت ” کا فریضہ بڑے احسن انداز سے سر انجام دیتی ہے حالانکہ پولیس اسٹیشن دُکھی ، لاچار ، بے سہارا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کے لیے ایک آماجگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں مگر موجودہ پولیس کلچر کی وجہ سے تھا نے آماجگاہ کی بجائے انسانیت کے لیے ”اذیت گاہ ” کا روپ دھار چکے ہیں اور تھانوں میں جس طرح ایک شریف اور معزز شہری کی عزت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں دیکھ اور سُن کر شرافت کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی کانپ اُٹھتی ہے ، معاشرے کے بد معاش ،اُچکے ،بھتہ خور ،شراب نوش ، جواری ، بُکیے ،جگہ ٹیکس کھانے والے ، کرائے کے قاتل اور غنڈے کو تو تھانے میں وی وی آئی پی کا پروٹوکول دیا جاتا ہے اور معاشرے کے ایک معزز، با وقار ، تعلیم یافتہ اور محب ِ وطن شہری کو ذلت و رسوائی کی علامت بنا دیا جاتا ہے اس وقت تھانے انسانیت کے لیے ”اذیت گا ہوں” اور تھا نے دار مقا می نمائندگان کے لیے” عشرت گاہوں” کا سامان مہیا کرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
Alcoholism
علاقے کا ایس ایچ او با قاعدہ بد معاشوں ، غنڈوں ، رسہ گیروں اور شراب و کباب و شباب کے رسیا بد قماش لو گوں کو ”تفریح ” کے وہ تمام ذرائع مہیا کرنے کا پابند ہو تا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو تا ہے اگر علاقہ کا ایس ایچ او محب ِ وطن اور ذمہ دار ہونے کا ثبوت دے اور اپنی توند کو رزقِ حلال سے بھرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ علاقہ سے چو روں ، ڈاکوئوں ، رسہ گیروں ، بد قماشوں کا خاتمہ نہ ہو سکے ،ایس ایچ او کے لیے پورا علاقہ ہتھیلی پر رکھے اُس دانہ کی مانند ہو تا ہے جس کا حدود ِ اربع اُس کے سامنے ہو تا ہے ، اگرکسی جاگیر دار اور وڈیرے کی مُرغی بھی گُم ہو جائے تو ایس ایچ او کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں تھانہ کی ساری نفری کو الرٹ کر کے پورے ضلع کی ناکہ بندی کر لی جاتی ہے اور چند سیکنڈ میں گواچی گئی مُرغی کا سُراغ بھی لگا لیا جاتا ہے ”مُرغی چورگینگ”کو عبرت کا نشان بھی بنا دیا جا تا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی ”گینگ ” کو علاقہ کے جاگیر دار ، وڈیرے ، رسہ گیر ، چور گر اور سرمایہ دار کی پالتو مُرغی اغوا اور چوری کرنے کی ہمت نہ ہو سکے ، مگر دوسری طرف اگر کسی غریب کی بیٹی کی عزت کسی جاگیر دار یا سر مایہ دار کی ہوس کا نشانہ بن جائے اور وہ شراب و کباب و شباب کا رسیہ جاگیر دار اپنے ہوس کے طبلے کی تھاپ پر اُسے نچاتا رہے تو جنابِ ایس ایچ او کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی اور وہ غریب و بے بس انسان کی عزت کو ایک جاگیر دار کی امپورٹِڈ نسل کے ہاتھوں لُٹتا دیکھ کر آنکھوں پر بے حسی کی پٹی اور کا نوں پر کاگ چڑھا لیتا ہے۔
اِس موقع پر جاگیر داروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے جنابِ ایس ایچ او کو نہ کچھ سُجھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ دِکھائی دیتا ہے وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے گویاگونگا ، بہرا اور اندھا پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کر تا ہے اور غریب عوام سڑکوں پر چھوٹا موٹا احتجاج کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں یوں جب عوام احتجاج کر رہی ہوتی ہے علاقہ کا ایس ایچ او اپنی ”خواب گاہ ”میں اُنہی وڈیروں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہو تا ہے جنہوں نے ایک غریب کی عزت کی دھجیاں بکھیری ہوتی ہیں اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ”غریب پرور ”نمائندگان بھی اپنے آپ کو ایسا شو کرانے کی کوشش کراتے ہیں کہ اِن سارے واقعات سے وہ لاعلم ہیں غریبوں کے ووٹوں سے ایوان کی زینت بننے والے ”غریب پرور ”نمائندگان نے بھی ہمیشہ رسہ گیر اور صاحب ِ جاگیر ہی کی حمایت کی ہے کیونکہ اُسے بھی ”عیاشی ” کے تمام تر ذرائع اِنہی لوگوں کی دہلیز سے میسر آتے ہیں۔
اب شہر لیہ کے مختلف محلے جس میں محلہ بلوچاں والا ، ہانس کا لونی ، قادر آباد ، محلہ واگھے والا ، محلہ فیض آباد ، محلہ عید گاہ ، محلہ نور آباد ، محلہ منظور آباد، محلہ گڑیانوی والا وغیرہ شامل ہیں اور تو اور تھانہ سٹی کی چھتر چھائوں میں سرِ عام شراب فروخت ہو رہی ہے اور اِن شرا بیوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ وہ نوجوان نسل کو کس طریقے سے چند ٹکوں کی خاطر تباہ و بر باد کر رہے ہیں مگر مقامی انتظامیہ نہ جانے کیوں خاموش ہے؟ اور وہ کون سی مجبوری ہے جس کی بنیاد پر مقامی ایس ایچ او صاحب ایکشن نہیں لے رہے ؟ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بعض محلے تو ایسے بھی ہیں جہاں 24 گھنٹے شراب نوشی اور شراب فروخت کا دھندہ عروج پہ رہتا ہے اور لوگوں نے اپنے گھروں کے اندر شراب کی بھٹیاں قائم کی ہوئی ہیں اور دھڑا دھڑ ”شاپر ز ” کے ذریعے فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور آج کل شا دیوں کا سیزن ہے تو شادیوں کے مختلف فنکشن میں بھی سرِ عام شراب نوشی کا کلچر جاری ہے آج تک کسی بھی ایسے علاقہ میں پولیس کی طرف سے ایکشن نہیں لیا گیا جہاں پر شراب نوشی کا کاروبار عروج پر ہے ، ہاں اگر دو چار لوگوں کو پولیس مقامی معزز شخصیات کی شکایت پر پکڑ بھی لیتی ہے تو راستہ ہی میں ”مُک مُکا ” پروگرام پر عمل شروع ہو جاتا ہے اور آج کل تو ایسے ملک دشمن و انسانیت کُش عناصر بھی ہیں جو زہریلی شراب بنا کر لوگوں میں عام کر رہے ہیں اور اس سے کئی گھرانے تباہ ہو رہے ہیں مگر ہماری انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کہ نوجوان نسل کو تباہی سے بچایا جائے اور معاشرہ کے ناسوروں کے خلاف ایکشن لیا جائے ؟ محب وطن عناصر بجا طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر مقامی پولیس بھی اِن ناسوروں کی سر پرستی کر رہی ہے۔
Police Station (Thana) Culture
خادم اعلیٰ پنجاب جناب ِ میاں شہباز شریف نے پولیس کلچر کی اصلاح کے لیے اربوں روپے خرچ کر ڈالے مگر تھا نہ کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکی ، وہی چھتر پریڈ ، رولا کریسی کے خوفناک منظر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ، چند مہینے پہلے ڈیرہ غازیخان کی جیل میں جس طرح قیدیوں کے ساتھ انسانیت کُش سلوک کیا گیا اُس سے گوانتا نا موبے جیل کی بھولی ہوئی داستانیں پھر سے تازہ ہو گئیں تھیںضلع لیہ کی پولیس نے بھی ڈیرہ کے اپنے پیٹی بھا ئیوں کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
گزشتہ سال جس طرح تھانہ فتح پور کی بے لگام اور منہ زور پولیس نے چکنمبر 245ٹی ڈی اے کے رہائشی اللہ دتہ کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کرکے اسے بے تحاشہ اپنے روایتی کلچر رولا کریسی اور چھتر پریڈ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا تھااس کی مثال پورے ڈویژن میں نہیں ملتی ،منہ زور اور بے لگام پولیس کے تشدد کی وجہ سے اللہ دتہ اللہ تعالیٰ کو پیاراہو گیا تھااور اسی طرح کروڑ لعل عیسن کے تھانے میں مظفر گڑھ کے ایک قیدی کے ساتھ جس طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا گیا تھا اس سے انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ بھی سبھی کو معلوم ہے اگر ڈی پی او لیہ نے بے لگام اور اقتدار کے نشہ میں بد مست سیاسی آقائوں کے اشاروں پر ناچنے والی منہ زور پولیس کو لگام نہ ڈالی تو پھر آنے والے دنوں میں کسی بھی غریب کی عزت محفوظ نہیں رہے گی کیا پولیس کا یہی کام ہے کہ وہ گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بد تمیزی کرے اُن کے دوپٹے نوچ ڈالے اور غلیظ گالیا ں دے ؟ پولیس گردی کی وجہ سے عوام تنگ ہے آئے روز گھروں میں بلا اجازت گھس جا نا پولیس نے معمول بنا لیا ہے۔
چوروں، اُچکوں، بد معاشوں، رسہ گیروں، ٹائوٹوں، منشیات فروشوں کو پکڑنے کی بجائے شریف شہریوں کو بلا وجہ تنگ کر نا یہ پولیس کا امتیازی نشان بن چکا ہے کوئی اِنہیں پوچھنے والا نہیں ہے ، شراب فروشوں سے با قاعدہ منتھلی لی جا رہی ہے اور قوم کے اِن نا سوروں کو کھُلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ قوم کی نو جوان نسل کے رگ و ریشے میں زہر اُنڈیل کر پری پلاننگ کے ساتھ اِن کو پہلے ذہنی معذور بنا ئیں اور پھرقبرستان ”شیخ جلال الدین پہنچائیں خادم اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جن پر آپ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں اِن کی اصلاح کے لیے بھی کوئی طریقہ اختیار کریں تاکہ پولیس کے بے لگام اور منہ زور گھوڑے کو لگام دی جا سکے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ پھر عوام اور پولیس کے درمیان پنجہ آزمائی ہو گی جیت کس کی ہوگی یہ ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں جس عوام کے سامنے شہنشاہ رضا پہلوی جیسے ”فرعون ”نہیں ٹھہر سکے تھے وہاں بے چاری پولیس کتنی دیر تک ٹھہرسکے گی ؟یہ جو ہمارے ہی قلم قبیلے کے احباب نے ”منشیوں ” والا کام پکڑ رکھا ہے یہ ہمارے منصب اور شعبہ کے شایان ِ شان نہیں ہے کچھ خدا کا خوف کھائیں اور عوام کے مسائل اُجاگر کریں محض اپنی دیہاڑی ہی پکی نہ کرتے رہیں عوام کی آواز بھی اُٹھائیں اور ایوانوں تک پہنچائیں ، چوک اعظم کے چند نالائق اہل ِ صحافت نے توچند ٹکوں کی خاطر قیصر مگسی اور ضلع لیہ کی بیورو کریسی کی خوشامد میں تمام حدود و قیود بھی کراس کر ڈالی ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔