لاہور (جیوڈیسک) پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز خواتین پر تشدد سے متعلق بل کی منظوری کے دوران پونے دو سو کے قریب مرد ارکان موجود ہی نہیں تھے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بیوروکریسی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود کئی حکومتی ارکان ایوان نہ پہنچے، بل پر بعض صوبائی وزراء کےبیان بھی دلچسپ مگر فکرانگیز رہے۔
مردانہ بالادستی کا زعم کہیں،یا بالادستی ٹوٹنے کا دھڑکا،اندیشہ یا خواتین کو برابر رتبہ دینے سے روایتی پہلو تہی۔پنجاب اسمبلی میں خواتین پر تشدد سے تحفظ کا جب بل آیا، ایوان میں خواتین ارکان توکیل کانٹے سے لیس ، پوری تیاری اور اعتماد کے ساتھ موجود،مگر مرد ارکان کی اکثریت غائب تھی۔
اپوزیشن تو بعد میں، حکومتی بنچوں پر نظر ڈالیں تو نصف سے بھی زائد مرد ارکان غائب تھے، نشستیں خالی، ویران،طاقتور حکومتی وزیر نے اپنے خوشگوار گھریلو تعلقات کی مثال بھی پیش کی ۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بیوروکریسی بھی بل کیلئے سرگرم تھی،اس کے باوجودحکومتی بنچوں کا یہ عالم کہ رائے شماری کا وقت آیا تو ایک نہیں، دو یا تین نہیں،اکٹھے 175ارکان غیرحاضرتھے۔
دلائل کے بل بوتے، بل تو خواتین نے منظور کرا لیا، سب ہی بہت خوش، مگر ایسی سن گن بھی کہ مرد ارکان کی بڑی تعداد اس پر خوش نہیں۔