کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ کارو کاری اور عورتوں پر ظلم کے خلاف تمام مذہبی جماعتیں قائل اور متفق ہیں، قرآن کریم نے عورتوں کی عزت و پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کیا اور عورتوں کے حقوق کے لئے بہترین قوانین وضع کیے، مگر قرآن و سنت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد سے سختی نہیں کر سکتے ہیں یا کسی معاملے پر سختی سے جراح نہیں کر سکتے ہیں۔
قوم کا وہ طبقہ جن کی اوالادیں خرافات و فحاشی کا شکار بن چکی ہیں وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عزت دار گھروں کی بچیاں اور عورتیں بھی ان کی روش پر چلنے لگیں، جو قانون پنجاب اسمبلی نے پاس کیا ہے وہ قرآن و سنت سے متصادم ہے، اس قانون سے معاشرے میں بڑھنے والی برائیوں کو پھلنے پھولنے میں مدد ملے گی۔
کیا آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشرے میں برائی پھیلانے جیسی شرائط بھی لگادی ہیں کہ وزیر اعظم کی جماعت اپنی خاندانی عزت و عفت کے لحاظ سے بھی دور ہوگئی ہے؟نہ صرف مذہبی جماعتیں بلکہ ملک کی عوام اور دیگر ادارے بھی اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، کیا پنجاب اسمبلی میں ایک بھی پارسا اور غیرت ایمانی سے لبریز رکن اسمبلی نہیں ہے جو اس بل کی مخالفت کرتا؟معاشرتی بگاڑ اور متضاد باتوں کو بنیادبنا کر پر قانون پیش کر کے اس میں اکتیس کلاز ڈال کر ماں باپ سے ان کا حق تک چھین لیا گیا ہے، اسلامی نظریاتی ملک میں اس طرح کا قانون کسی صورت نہیں چلنے دینگے۔
غیرت کے نام پر قتل اور کارو کاری کے خلاف قانون سازی بھی قرآن و سنت کے دائرہ کار میں رہ کر کی جائے، پنجاب اسمبلی کے اسلام دشمن اور اسلام مخالف قانون کے پاس کرنے پر مختلف مذہبی رہنمائوں سے رابطہ کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں بے شرمی و بے حیائی کے قانون کو پاس کر کے اسلام مخالف قوانین کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
ملک میں سب سے پہلے جمہوریت اور اسلام کا مذاق پنجاب اسمبلی میں ہی بنایا جاتا ہے، ایسے قوانین سے خیر نہیں بلکہ شر کی امید ہے معاشرہ میں مزید بگاذ پیدا ہوگا اور ہر رکن اسمبلی اس گناہ میں برابر کا شریک ہے، گا، جنرل مشرف نے بے حیائی سے بھرپورحدود آرڈینس پاس کیا اور وہ مسخ شدہ تاریخ کا حصہ بن گئے، نواز شریف بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ انسانیت کا دستور جو رسول اللہ ۖ نے دیا ہے وہ نافذ کیا جائے تو اس میں حجت تلاش کی جاتی ہے، مگر خود پارلیمنٹ میں حیا باختا اور اسلام سے متصادم قانون پاس کر کے اسے اسلام سے چسپاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صدر سود خوری کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں اور وزیر اعظم بے حیائی و بے شرمی کو شیلٹر دینا چاہتے ہیں، مغرب زدہ معاشرے میں ایک یہی بات رہ گئی تھی کہ قوم کے بڑوں سے اپنی بچیوں کی تربیت کا حق بھی چھین لیا جائے، جمعیت علماء پاکستان، مرکزی جماعت اہل سنت، انجمن طلبہ اسلام اور انجمن نوجوانان اسلام کے قائدین کے نام اپنے پیغام میں شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ حکومت مسلسل اسلام مخالف ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ و بھارت سے دوستی کے لئے مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دے کر قوم میں معاشرتی برائیوں کو عام کیا جا رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا ہونے کے لئے خود کو مغرب زدہ ماحول کی نظر کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ حکومت قرآن سے جنگ کی متحمل نہیں ہوسکے گی، یہ قانون اسلامی نظریاتی کونسل کو ریفر کیا جائے،انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں لائحہ عمل تیار کر رہی ہیں۔