تحریر: کامران غنی صبا انوار الحسن وسطوی صاحب کی تحریریں میں اپنے اسکول کے زمانے سے ہی پڑھتا آ رہا ہوں۔ ان کی تحریریں صاف ستھری، تصنع سے پاک ، بہت ہی معروضی اور مدلل ہوتی ہیں۔ یہی خوبی ان کی شخصیت میں بھی جھلکتی ہے۔ وہ اردو کے ایک سچے اور بے لوث خادم ہیں۔ نام و نمود کی تمنا سے بے پروا ہو کر زمینی سطح پر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔اردو سے ان کا لگائو عشق اور دیوانگی کی حد تک ہے۔ پروفیسر ثوبان فاروقی نے انوار الحسن وسطوی کے تعلق سے جو رائے قائم کی ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔ میں ان کے خیال سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ پروفیسر فاروقی لکھتے ہیں۔
”میں نہیں جانتا کہ شہر حاجی پور کے دانا و بینا حضرات عزیز گرامی انوار الحسن وسطوی کے بارے میں کیا کیا گمان رکھتے ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں میرا عقیدہ نہایت صاف اور واضح ہے اور اس کے برملا اظہار میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا کہ عزیز موصوف کو میں ا س خطۂ ارض کا بابائے اردو تسلیم کرتا ہوں اور اپنے عقیدے پر جو بر بنائے اخلاص ہے، استقامت کے ساتھ قائم ہوں اور اس میں کسی طرح کے ترمیم و اضافہ کا ہرگز روادار نہیں۔”
انوار الحسن وسطوی کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ”نقوش قلم” کے عنوان سے ابھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی 13شخصیات کی زندگی اور کارناموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں دو مضمون شامل ہے، دونوں ہی مضامین اردو کے مسائل سے متعلق ہیں۔ تیسرا حصہ تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس حصہ میں 15 کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔
پہلے باب میں عبد القوی دسنوی، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی، الحاج ہارون رشید، ڈاکٹر رضوان احمد، شکیل احمد خاں ایڈوکیٹ، تمنا مظفر پوری، محمد مرغوب، قیصر صدیقی، پروفیسر ناز قادری، پروفیسر فاروق احمد صدیقی، قوس صدیقی اور بدر محمدی جیسی شخصیات کے علمی، ادبی اور سیاسی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس حصے میں شامل سبھی مضامین مختصر مگر جامع ہیں۔ ان مضامین میں شخصیات کا تعارف بھی ہے اور ان کی خدمات پر بھر پور انداز میں روشنی بھی ڈالی گئی ہے۔انوار الحسن وسطوی کے سینے میں اردو کا دل دھڑکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کسی شخصیت کی اردو دوستی کا ذکر کرتے ہیںتو چند سطور پر اکتفا نہیں کرتے ۔ پروفیسر عبد القوی دسنوی کی اردو دوستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
Urdu Adab
”اردو ادب کی تاریخ میں بے شمار ادیب، شاعر، ناقد اور محقق پیدا ہوئے لیکن حقیقت میں ان میں اردو کے دیوانے بہت کم ہی ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی کو اردو زبان کے فروغ و بقا کے لیے وقف کر رکھا ہو اور جن کی ہر سانس میں اردو رچی بسی رہی ہو۔ اردو کے ایسے دیوانوں کی فہرست میں پروفیسر عبد القوی دسنوی کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔”(صفحہ21)۔
انوار الحسن وسطوی کی تحریر وں کا وصف خاص ان کا اعتدال ہے۔ ان کی تحریروں میں مبالغہ یا تصنع کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ جب وہ کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو ایک طرف جہاں منفی پہلوئوں سے صرف نظر کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں تعریف و ستائش میں بھی حد اعتدال سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔ انوار الحسن وسطوی شاعر، ادیب یا ناقد نہیں ہیں لیکن ان کی تحریروں میں شاعرانہ شعور بھی ہے اور ادبی سرور بھی۔قیصر صدیقی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔
”قیصر صدیقی کی شاعری میں نہ صرف ان کے اپنے احساسات، جذبات اور مشاہدات ہیں بلکہ اس میں ایک شدید عصری حسیت بھی پائی جاتی ہے جو زندگی کے شعور و اداراک سے پیدا ہوئی ہے۔” (صفحہ82)۔
قوس صدیقی کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں : ”قوس صدیقی کو شعور ذات ہے۔ وہ اپنی خودی اور خودداری کا عرفان رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے ناقابل شکست ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کے اس اعلان میں فرد اور جماعت کی عزت نفس کا احساس ہے۔”(صفحہ111)۔
بہار کی اردو تحریک کے حوالے سے انوار الحسن وسطوی کا مضمون بہت ہی پر مغز اور معلوماتی ہے۔ اس مضمون میں آزادی کے بعد سے تاحال اردو تحریک کے نشیب و فراز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اردو تحریک سے وابستہ تنظیم اور افراد کو اس مضمون سے ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔اس وقت بہار میں کئی تنظیمیں اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں ۔ ان میں اردو کونسل ہند، اردو نفاذ کمیٹی، کاروان اردو، تحریک اردو اور انجمن فروغ اردو وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔انوار الحسن وسطوی ان تمام تنظیموں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
Urdu
”صوبائی سطح کی نصف درجن اردو تنظیموں کی موجودگی میں بھی اردو کا مسئلہ ابھی تک جوں کا توں برقرار ہے۔ سرکاری سطح پر جن مقاصد کے لیے اردو کا استعمال ہونا تھا، وہ نہیں ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر سرکاری دفاتر تک کہیں بھی اردو کو اس کا جائز حق نہیں مل رہا ہے۔”(صفحہ128)۔
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:”۔۔۔ بہار کی اردو تحریک جس نے ماضی میں پورے ملک کو متاثر کیا تھا اور اردو کی لڑائی لڑنے کا پورے ملک کو حوصلہ دیا تھا، اب خود دم توڑ چکی ہے۔ اب نہ کوئی ہمارا رہبر ہے اور نہ ہماری کوئی منزل ہے۔”(صفحہ129)۔
انوار الحسن وسطوی کو صرف شکوۂ ظلمت شب کرنا نہیں آتا بلکہ وہ اپنے حصے کی شمع جلانے کا فرض بھی ادا کرتے ہیں۔انوار الحسن وسطوی کا خیال ہے کہ بہار میں اردو والوں کی قیادت کے لیے سب سے موزوں ترین نام پروفیسر اعجاز علی ارشد کا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے پروفیسر موصوف کو سن 2010 ء میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ چھ سال گزر گئے لیکن پروفیسر موصوف کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ انوار صاحب کی سادہ لوحی دیکھئے کہ وہ اب بھی ”دل محو انتظار ہے آنکھیں ہیں فرش راہ” کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ لکھتے ہیں۔
”بہر کیف میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں۔ میری نظر میں پروفیسر اعجاز علی ارشد ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔ اس لیے اردو کی تمام تنظیموں کے عہدیداران اور ذمہ داران کا تعاون انہیں مل سکتا ہے۔”(صفحہ130)۔
خدا کرے کہ انوار صاحب کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔ کتاب کا تیسرا باب تبصروں پر مشتمل ہے۔ان کے تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتابوں کا سرسری مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔البتہ ان کے تبصروں میں ایک کمی ضرور کھٹکٹی ہے جس کا ذکر مفتی ثناء الہدی قاسمی نے بھی کیا ہے کہ وہ کتاب اور اس کے مندرجات کی خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتے ہیں۔
مجموعی اعتبار سے انوار الحسن وسطوی کے مضامین کا مجموعہ ”نقوش قلم” دستاویزی حیثیت کا حامل ہے۔ ”نقوش قلم” کی اشاعت پر میں انہیں صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ”رشحات قلم” کی طرح اس کتاب کو بھی خاطر خواہ پزیرائی اور مقبولیت حاصل ہوگی۔