لاہور (جیوڈیسک) گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے تحفظ خواتین بل پر دستخط کردیئے جس کے بعد بل کو قانونی حیثیت مل گئی۔
پنجاب اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور ہونے والے تحفظ خواتین بل پر گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے دستخط کردیئے جس کے بعد اس بل کو قانونی حیثیت مل گئی۔ پنجاب کے ہر ضلع میں تحفظ خواتین قانون پر مرحلے وار عملدرآمد ہوگا اور پہلے مرحلے میں قانون پر عملدرآمد ملتان میں ہوگا۔
اس قانون کے ذریعے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو تین طرح کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا،نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی، پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے۔
تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکےگا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی جسے ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے 6 ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔
ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔
جب کہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی، مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی،مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔
واضح رہے کہ تحفظ خواتین بل گزشتہ برس پنجاب اسبملی میں پیش کیا گیا تھا تاہم اراکین کی جانب سے کئی اعتراضات اٹھائے جانے کے باعث یہ منظور نہ ہوسکا تاہم 25 فروری کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر اس بل کی منظوری دی تھی۔