رحیم یار خان: تاریخی قلعے ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔قدیم تہذیب و ثقافت کو بچانے کیلئے کھنڈر بنتے قلعوں کو اپنی اصلی شکل میں بحال کرکے چولستانی علاقوںکو ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز اورٹورازم کو فروغ دیا جا سکتاہے۔
ابو ظہبی پیلس سے قلعہ ڈیراور جانے والی شاہراہ پر ٹی چوک تک 60کلو میٹر علاقہ میں پانچ نئے شہر آباد کرکے موجودہ شہروں پر آبادی کا دبائو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معرو ف سماجی کارکن ممتاز بیگ نے چولستان کے مطالعاتی دورے اور 78کلومیٹر پر واقع 1775ء میں تعمیر ہونے والے قلعہ خیر گڑھ کی شکستہ حالت دیکھنے کے بعد کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ چولستان وہ واحد علاقہ ہے جہاں سے وادی سندھ کی تہذیب کا آغاز ہوا تھا۔
دریائے ہاکڑہ کی اس 3سومیل طویل پٹی میں4 سوسے زائد آبادیاں تھیں جو دریا کا رخ بدلنے، بعد میں آنے والی قوموںکے حملوںیا قدرتی آفات کی وجہ سے ختم ہو گئیں۔یہ علاقہ کسی زمانے میںتجارتی قافلوں کی گزرگاہ، سر سبزوشاداب اور خوشحال انسانوںسے آبادتھا لیکن اب حد نگاہ ویرانی اور ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔ قلعہ اسلام گڑھ ، قلعہ میرگڑھ، قلعہ جام گڑھ، قلعہ موج گڑھ، قلعہ مروٹ، قلعہ رام کلی، قلعہ خان گڑھ، قلعہ خیرگڑھ، قلعہ نواںکوٹ،قلعہ بجنوٹ، قلعہ ڈیراور،قلعہ چانڈا کھانڈا،قلعہ بھاگلہ،قلعہ قائم پوروغیرہ ہمارا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہیں۔نواب آف بہاولپور خاندان کی حکمرانی کے بعد چولستان کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔
منتخب نمائندوں اور متعلقہ اداروںنے ان قلعوں اور ان کے آس پاس موجود وادی سندھ کی تہذیب کے آثار وں کی مناسب دیکھ بھال, تعمیرو مرمت اور اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے پرخصوصی توجہ نہ دی تویہ بہت جلد مٹی کا ڈھیر اورآنے والی نسلیں اپنے آباو اجداد کی تہذیب و تمدن کو بھول جائیں گی۔ اس موقع پر ادارہ فاطمہ فائونڈیشن کے راجہ ارباب بھی ہمراہ تھے۔