تحریر: شاہ بانو میر پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے جبھی تو آج پھر ایک کرامت ہوئی اور مصطفی کمال زندگی کو داو پر لگا کر کراچی جا پہنچے اور خطرناک سیاسی تباہ کن حقائق سے پردہ اٹھایا آج پاکستان کی سیاسی بنیادیں ایک بار پھر لرز کررہ گئیں سیاسی سونامی جیسے پاورے ملک کیی سیاست کو یکبارگی ہی لے اڑا مصطفیٰ کمال کی اچانک پاکستان آمد اور ایسی کانٹے دار پریس کانفرنس کہ جس نے سیاسی جوہڑ کی پوری کی پوری غلاظت ایک ہی بارنمایاں کر دی۔
نظریاتی اراکین کسی بھی جماعت کے ساتھ ہوں محنت دیں زندگی دیں اور اپنی نسل کو پھلتے پھولتے بھی دیکھنا چاہیں ایسے لوگوں کا ضمیر زندہ رہتا ہے کسی بھی ظلم کو جبر کو برداشت نہیں کرتے .برداشت کی آخری حد کو چھوتے ہوئے ناکارہ نظام کے خلاف بول نہ سکیں تو خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور سقراط کا کہنا کہ اگر سیاست سے کنارہ کش ہو جاو گے تو تو تم سے کمتر لوگ سامنے آئیں گے کمتر کی بجائے اگر دشمن ملک کے دہشت گرد سامنے آجائیں تو مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں سے پارٹی کے پسے ہوئے لوگ جلنے والوں کے لوحقین پھانسی چڑہائے جانے والوں کے ورثاء سزا کے منتظر کال کوٹھڑیوں میں گلنے سڑنے والے غریب نادار جو پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے ان کے ہتھے چڑھے چھوٹی غلطی کی اور عمر بھر کیلئے بلیک میل ہونے لگے یہاں تک کہ اس چھوٹے جرم کو چھپاتے چھپاتے بڑے بڑے جرائم میں کیسے مبتلا ہوگئے وہ خود نہیں جانتے ہوں گے۔ ظلم حد سے بڑہتا ہے تو انجام پاتا ہے۔
Imprisonment
یکے بعد دیگرے صولت مرزا اور سیکڑوں غریب کارکنان کی گرفتاری پر ان کے اہل خانہ نے ہر جگہہ دہائی دی ہوگی اور مصطفیٰ کمال جیسے لوگ بلاخر واپس آکر وہ سب کہنے پر مجبور ہو گئے جس کی وجہ سے سیکڑوں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے والوں کیلئے کچھ سہولت ملنے کی امید ہے 2016 فیصلہ کُن سال ہے ہر ایک کے اصل مقام کا 2016 میں چور چور کے ساتھ دکھائی دے گا واعظ واعظین کے ساتھ کہیں کوئی ابہام نہیں رہے گا یہ بات مصطفیٰ کمال کی اس بے باک ببانگ دہل تقریر نے واضح کر دی روتے ہویے ہچکیوں سے اس انسان نے دوبئی میں میٹنگز بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ روابط اور دیگر ہر قسم کے جرائم پر تفصیل سے رائے دی جان ہتھیلی پر رکھ کرمفاد عامہ کیلئے ایسی سچ بیانی صرف یہی کر سکتے تھے۔
اللہ پاک خیر سے شر کو اور شر کو خیر ایسے ہی نکالتے ہیں وہ کہاں سے کردار لاتا ہے اور کہاں فیصلہ صادر کرتا ہے اور اس کی حکمت کے آگے ہر عیار مکار بے بس دکھائی دیتا ہے کراچی کی زندگی کو موت کی دہلیز پر رکھ کرمارنے جلانے کاٹنے والے آج اللہ کے عتاب کا اور جانوں کے حساب دینے کیلئے ہراساں دکھائی دے رہے ہیں مصطفیٰ کمال آپ نے پاکستانی سیاست کو نیا موڑ دیا اور جو کیا وہ آجکل ممکن نہیں ہے لیکن فرقان دے کر بیان کروانے والا صرف وہی خدا ہے۔