نئی دہلی (جیوڈیسک) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خودمختاری میں حکومت کی مبینہ مداخلت کے معاملے پر جمعہ کو بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن ارکان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حکومتی مداخلت پر شدید احتجاج کیا جس کے باعث ایوان میں زبردست ہنگامہ بھی ہوا۔
ہنگامے کو دیکھتے ہوئے ایوان کی کارروائی دوپہر 12 بجے تک ملتوی کرنا پڑی۔ ارکان پارلیمنٹ کا ہنگامہ وقفہ صفرکے دوران اس وقت شروع ہوا جب سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جاوید علی خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذریعے اپنے مین کیمپس سے باہر بھی پانچ شاخیں کھولنے کا معاملہ اٹھایا۔ رکن پارلیمنٹ جاوید علی خان نے کہا کہ اے ایم یو کی پانچ شاخیں کھلنی ہیں جن میں سے تین شاخیں کھل چکی ہیں اور دوکا کھلنا ابھی باقی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس دوران اے ایم یو کے وائس چانسلر کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مرکزی وزیر برائے انسانی وسائل نے اے ایم یو کی ان شاخوں کو غیر قانونی قراردیدیا ہے اور ان کیلئے مالی مدد بندکردینے کی بھی دھمکی دی ہے۔
جاوید علی خان کا کہنا تھا کہ اے ایم یوکا وزیٹر ملک کا صدر ہوتا ہے اور یوینورسٹی کی اکیڈمک کونسل یا ایگزیکٹو کمیٹی صدر کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تو پھر مرکزی وزیرکو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اسکی شاخوں کی مالی امداد بند کر دینے کی دھمکی دیں۔
اپوزیشن کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے کہا کہ اے ایم یو کو سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے اور حکومت اسکا یہ درجہ باقی رکھنے کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت علی گڑھ یونیورسٹی اور دیگراقلیتی تعلیمی اداروں کے اقلیتی درجے کی حفاظت کیلئے پرعزم ہے۔