تحریر: شاہ بانو میر کئی بار خلاف طبع لوگوں کے ساتھ جینا پڑتا ہے بس صبر کرو کافروں کی باتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر کرنا پڑتا تھا دوستوں میں ساتھیوں میں رشتوں میں سو فیصد ہم آہنگی نہیں ہوتی لہذا زندگی اک سنہری اصول یہ ہے کہ آپ ہر بری بات کو نظر انداز کر کے اچھی باتوں پر اور ساتھیوں کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے ان کی قابلیت کو بہترین انداز میں استعمال کر کے ان کو زندگی می قابل قدر بنا دیں۔
اپنے مطابق بنانے کی خواہش کو ترک کر کے وسیع تر مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت دیں برداشت صبر اور قوت برداشت کسی بھی خاندان ادارے قوم ملک امت کیلئے بنیادی اصول ہے۔۔ جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ختم کر دی جائے وہ معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہو کر برباد ہو جاتا ہے تعصب اور حسد ہر جگہہ ناکامی کا سامنا کرتا ہے۔
Success
ذہن و دل کو بڑی سوچ دیں دوسروں کی قابلیت کو ماننا سیکھیں اور یہ اصول اگر عام ہوا تو قوم کی کامیابی میں کوئی دوسری رائے نہی دکھائی دے گی صبر اور تحمل آج کے دور کی پہلی ضرورت ہے ہماری انفرادی کامیابی اور اجتماعی ناکامی آج عدم برداشت حسد کی وجہ سے ہے۔ جس ماں نے صبر کیا برداشت کیا اس کی بچی شادی کے بعد نئے رشتوں کو اسی کے تحت نبھاتی اور برداشت کر کے اپنا مقام بناتی ہے۔
سسرال کی باتی بچیوں کو سننی پڑتی ہیں اور بعض اوقات دنیا والوں کی دین والوں کو سننی پڑتی ہیں ساس بہو کے مزاج مین کب فرق ہو تو بہو کو سمجھایا کہ یہ آیت پڑہیں اور صبر کریں زندگی مین جینے کا خوش رہنے کا یہی ایک راز ہے درمیان کے نیک ہوں میاں بیوی اور یا پھر بہت اچھے ہوں مگر مزاج میں فرق ہو تو مسئلہ نہیں بنانا صبر مفاہمت نظر انداز کر کے خوش رہیں جہاں بات خراب ہونے لگے وہاں چائے کا پوچھ کر وہاں سے اٹھ جائیں اور مسکراہٹ کے ساتھ اس متنازعہ بات کو ختم کر دیں۔