میرپور (جیوڈیسک) آزاد کشمیر کے چھ جون کو ہونیوالے انتخابات میں وزیر اعظم چوہدری مجید کو اپنے حلقے2 چکسواری میں پی ٹی آئی کے ظفر انور اور ن لیگ سے سخت ترین مقابلے کا سامنا ہوگا۔اس حلقے میں ووٹروں کی اکثریت چوہدری مجید کے مخالف ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں لوگوں کو جھوٹے وعدوں پر ٹرخایا اور بیٹوں نے نوکریوں کی لوٹ سیل لگائے رکھی۔ انکی حکومت میں پیسوں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا جس کا خمیازہ اب چوہدری مجید کو بھگتنا پڑیگا۔
پیپلز پارٹی والوں کا کہنا ہے کہ چوہدری مجید کے تعلیمی شعبے میں تاریخی کام ہیں۔ یہ بات درست بھی ہے کہ چوہدری مجید نے تعلیم کے فرو غ کیلئے بہت سے سکول اور کالجز اپ گریڈ کئے ہیں ۔ حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ چوہدری مجید نے سکول اور کالج اپ گریڈ توکئے ہیں مگر فنڈز نہیں رکھے یہ سیاسی شعبدہ بازی عوام جانتے ہیں۔ باخبر ذرائع سے پتا چلا ہے کہ خالق آباد میں چوہدری مجید نے ایک فیملی کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے دو لاکھ روپے دیئے ۔اس گھرانے کے سربراہ نے ڈیڑھ لاکھ روپے رکھ لئے اور پچاس ہزار وزیراعظم کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ آپکے بیٹے نے ہم سے نوکری کے عوض ڈیڑھ لاکھ روپے لئے تھے وہ ہم نے وصول کرلئے ہیں اور بقیہ رقم آپکو واپس کردی ہے اسلئے ہم سے ووٹ کی توقع نہ کریں۔
اس حلقے کی عوام کا کہنا ہے کہ ہم نے چوہدری مجید کو ووٹ دیکر وزیراعظم بنایا تھا اس لئے انکے چند کاموں کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی ہم پر کوئی احسان ہے۔آزادکشمیر بھر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،خستہ حال گلیاں اور تباہ شدہ اسپتال چوہدری مجید کے کاموں کا پول کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ایک سال گزرنے کے باوجودہال روڈ کا زمین بوس ہونیوالا حصہ اور کوٹلی روڈ کا ڈیم میں بہہ جانیوالا حصہ ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ میرپور سے اسلام گڑھ جانیوالا پل پورے دور میں مکمل نہیں ہوسکا۔ اس حلقے میں چوہدری مجید اور انکے بیٹوں کی کرپشن کی کہانیاں انہیں شکست سے دو چار کر نے کیلئے کافی ہیں۔
گذشتہ انتخابات میں چوہدری مجید نے ا ٹھارہ ہزار ووٹ لیکر یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ انکے مدمقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار کیپٹن سرفرا ز کو گیارہ ہزار ووٹ ملے تھے ۔اِس وقت صورتحال بالکل تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ انکی اپنی جٹ برادری سے تعلق رکھنے والے ظفر انور تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جنکی حمایت سے چوہدری مجید ہمیشہ جیتتے آئے ہیں،یہاں دیگر قبائل بھی چوہدری مجید کے سخت خلاف ہوچکے ہیں اور وہ بڑھ چڑ ھ کر تحریک انصاف کے امیدوار ظفر انور کی حمایت کررہے ہیں۔
اس حلقے میںمسلم لیگ ن نے ابھی تک اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ، کیپٹن سرفراز کی فیملی کا حمایت یافتہ امیدوار بھی چوہدری مجید کو ٹف ٹائم دیگا۔چوہدری مجید کے قریبی لوگ اور پیپلز پارٹی کے وزراء ن لیگ اور پی ٹی آئی میں جانے کیلئے خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں جونہی الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگا ، وزیراعظم کا عہدہ اور جھنڈی غیر موثر ہوجائیگی، چوہدری مجید کے ساتھی اور وزراء ایکدم پارٹی چھوڑنے کا اعلان کریں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اپنی برادری کے ظفر انور سے پہلی بار امتحان جیسی صورتحال پیش آسکتی ہے کیونکہ اسلام گڑھ اورچکسواری جیسے پیپلز پارٹی کے گڑھ میں ن لیگ اور پی ٹی آئی وائرس کی طرح پھیل چکی ہے۔
پورے حلقے کی عوام چوہدری مجید کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے جنہیں اب راضی کرنا چوہدری مجید کے بس کی بات نہیں ہے۔لوگوں کو اپنی طرف موڑنے کیلئے حال ہی میں تیرہ سو جیالوں کو بھرتی کیا گیا ہے لیکن جونہی نئی حکومت آئیگی انہیں ملازمت سے فارغ کردیا جائیگا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حلقے میں بینس راجپوں کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا لیکن وہ کسی ایک طرف نہیں ہیں بلکہ راجپوت ہمیشہ کی طرح تقسیم ہیں اور انکے اتحاد کا کوئی چانس نہیں ہے۔