تحریر : میاں وقاص ظہیر جمعہ المبارک کی ادائیگی کے بعد مجھے عدالت پہنچنا تھا ، عدالت اور مسجد کی مسافت زیادہ دور نہیں تھی ، لہذا پیدل ہی عدالت کی طرف سفر شروع کر دیا، عدالت جانے والی سڑک تھی کے چلتے ہوئے اپنے چہرہ بھی نظر آئے ، دائیں بائیں سرسبز لہلہاتے کھیت و کھلیان ، کہیں پر میوہ جات کے باغات اور کہیں پر پھلوں کے درخت اس جگہ کے حسن کا ایک الگ ہی نظار ہ پیش کر رہے تھے، مجھے اپنے سفر سے زیادہ یہ نظارے متاثر کر رہے تھے ، میری حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی تھی ، کہ ایک دلچسپ اور خوبصورت مقام نے مجھے کافی دیر تک وہاں پر کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا، اس گناہ گار آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت ندی تھی ، جس کا پانی چاندی کی طرح چمک رہا تھا ،۔
جس کا پانی ادھر گرد کے کھیت و کھلیان کی منظر کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کھیت و کھلیان پانی کے اندر ہی اگلے ہوئے ، ندی کے دوسری جانب ایک اور ندی کا نظارہ کیا تو اس کے پراسرار پانی نے بھی حیرت کے تاثر کو مزید مضبوط کیا، ندی کا پانی میٹھا اور اس کی رنگ سونا کی زری مائل مجھے پینے کا تجسس ہوا تومدل نادان اسی سوچ میں تھا کہ اس کا ذائقہ تو آج تک خرد نے نہیں چکھا ، اس خوبصورت جگہ کی طرح بھی یہ آب بھی شیریں اور خوش ذائقہ ہے ،۔
Court
میرے آہستہ آہستہ قدم آگے کی جانب اٹھ رہے تھے ، میری طبیعت میں عجیب سی تبدیلی آتی محسوس ہورہی تھی میرا وجود خو د کو ہلکا محسوس کر رہا تھا ، آخر میری منزل آگئی ، یہاں بھی حیرت کدہ کی نئی نئی کہانیوں سے میرا استقبال کیا عدالت کے مرکزی گیٹ پر ریشمی لباس میں ملبوس نورانی چہروں والوں کی مڈ بھیڑ تھی ، احاطہ عدالت کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہاں نہ تو کوئی سکیورٹی تھی ، نہ کوئی وی وی آئی پی نہ کوئی پروٹوکول ، مجھے عوام الناس کی لابی میں جگہ مل گئی وہاں ہر چہرہ مطمن ، خوف سے مبرا اور ان پر ایسی خوشی جھلک رہی تھی جو مجھے آج تک کہیں نظر نہیں آئی ، کمرہ عدالت کی دیواریں سونے کی پتروں سے سجی ہوئی تھی ، جو اس مقام کیں شان میں مزید اضافہ کر رہی تھی ،۔
میرے پہنچنے کے چند منٹ بعد عدالت کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی ، یہ کیا میرے منہ کھلے کا کھلا اور آنکھیں ایک لمحے کیلئے پتھر گئی ، مجھے ان لمحوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے جیسا کم ظرف انسان ان لوگوں کا دیدار کر رہا ہے جنہیں میرے رب نے افضل اور اعلیٰ مقام عطا کیا اور انہیں ایسے مقام پر فائز کر دیا جہاں پہنچنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے ، لیکن ان کیلئے چند مخصوص ہی انسانوں کا انتخاب ہوتا ، جن کا کردار ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، میرے سامنے ایک خوبصورت کڑیل جوان چہر ے پر مسکراہٹ ، لب کی سرخی مائل ، چہرہ میں ایسا برستا نو ر جس کی تاب لانا مشکل ہورہی تھی جسم پر قیمتی ریشمی لباس تن زیب کئے ہوئے کون ہے یہ خوش نصیب جب آنکھیں اس چہرے اقدس پر ٹھہری تو چہرہ بھی شنا سا معلوم ہوا ،۔
یاد داشت پر زور دیا تو اچانک ہی دماغ میں گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں ، ارے یہ تو عاشق رسول ۖ غازی ممتاز قادری ہیں ، عدالت میں مقدمے پر باقاعدہ دلائل شروع ہوچکے تھے ، لیکن ایک خاص بات یہ بھی دیکھنی کو ملی کہ اس عدالت میں کوئی انسانی گواہ نہیں تھا ، نہ ہی کسی سے سچ بولنے کا حلف لیا گیا ، دلائل مکمل ہوئے تو عدالت میں موجود پر نور قیمتی ریشمی لباس میں ملبوس جس کا نام شاید ملائکہ تھا نے تحریر کردہ فیصلہ سنایا ، اس فیصلے میں یہ کہا گیا ماڈل ٹاؤن نے شہداء سے لے کر ناموس رسالت ۖ کے نام پر خود کو زندہ جاوید میں نام نکلوانے والے غازی ممتاز قادری کے ساتھ کئے گئے سلوک کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی ، جس کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا ہے ، ن لیگ کے اقتدار کا آخری سورج غروب ہونے والا ہے ، پاکستان میں بہت سے لوگ سچی توبہ کرکے ملکی بہتری کچھ کرنے کیلئے کمر بستہ ہوچکے ہیں ، ان میں بہت سے ابھی بھی باہر بیٹھے ہیں ، پاکستان کا کمزور عدالتی نظام بااثر افراد کو سزا نہیں دے سکتا ،۔
Allah
قدرت براہ راست ان کی سزائیں تجویز کر چکی ہے ، جس کیلئے انتظار تھوڑا سا رہ گیا ہے ، پاکستان کے مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے ، جسے یہاں کے رہنے والوں سے زیادہ مدد کیلئے باہر سے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جائیں ، مزید بھی فیصلے سنائے گئے لیکن مجھے سنائی نہ دیا اور میں گڑ بڑا کر بستر سے اٹھ بیٹھا ، اس وقت سورج اپنی کرنیں زمین پر پھیلا چکا تھا ، فقیر نے گردن کو جھٹکا دیا اور اپنے ساتھ ان تمام مناظر کا جائزہ لیا جو تھوڑی دیر پہلے دیکھ چکا تھا ،۔
تو ایک بات تہہ تھی کہ خواب میں وہ جن مقامات سے گزرا ہے وہ فردوس بریں تھی اور جس عدالت میں پہنچا تھا وہ اللہ کی لگائی ہوئی عدالت تھی ، لیکن نا جانے کیوں مجھے ابھی بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی دارالعمال میں رہتے ہیں ، یہاں جنتی بھی ہماری سانسیں باقی ہیں یہاں عمل کا میدان بھی کھلا اور توبہ کے دروازے بھی ، لیکن اگر ہم دارالحساب میں میں جاپہنچے تو وہ تو نہ کوئی خونی رشتہ کام آئے گا نہ دولت ،نہ مرتبہ اور نہ ہی کوئی اور چیز سوائے اپنے کردار کے ، اس کیلئے چند منٹ کیلئے تنہا ہو کر حرص و لالچ سے بالاتر ہوکر ضرور سوچیئے گا۔