تحریر: مقصود انجم کمبوہ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ کا کہنا ہے کہ ہر انسان کا زندگی کے متعلق اپنااپنا نظریہ ہے ۔ اس کے علاوہ منشیات، شراب نوشی ، جنسی جرائم ، بے روزگاری ، ہم جنس پرستی ، طلاق ، مذہب سے بے زاری ، بچوں کی والدین کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونا، ایٹمی جنگ کے خطرات ، ٹیلی ویژن میں دکھایا جانے والا تشدد ، اسلحہ کی بھرمار ، معاشی نا ہمواری اور معاشرتی انتشار وغیرہ ہی وہ وجوہات ہیں جو انسانوں کو غیر محفوظ بناتی ہیں ۔ اس لیے نوجوانوں کی خودکشی کی کہانی پر جامع تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک ایسے المیے سے دوچار کیوں ہیں ؟ کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ہم مادیت پرست ہو چکے ہیں ۔ ہماری معاشرتی اقدار زوال پذیر ہو چکی ہیں ۔ لالچ خود غرضی وغیرہ نے انسان کی روحانی قدریں چھین لی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ نے نوجوان نسل کو باغی کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔
بچے نوجوانی کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بالغ ہو رہے ہیں ۔ انکی مادی ضروریات بڑھ چکی ہیں وہ اپنی ذہنی تسکین کے لیے ہر ذریعہ اپنا رہے ہیں ۔ یہ نوجوان صرف وقتی خوشی کو ہی زندگی سمجھنے لگے ہیں ۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو جھوٹ کے بدلے میں بیچ دیا ہے ۔اب ہم کیا کریں ہمیں سچائی کو تلاش کرنا ہو گا ۔ ان کی قدروں کو بحال کرنا ہو گا اور نا معاشرتی نا ہمواری کو ختم کرنا ہو گا ورنہ دہشت گردی انتہا پسندی ، قتل و غارت گری ڈاکہ زنی کی شرح میں اضافے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ سب کچھ کون کرے گا دور دور تک ایسے آثار نظر نہیں آرہے ۔ حکمران اور سیاستدان حقائق سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں ۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جاتا ہے جو انکی اپنی پسند کا ہو ۔۔
Educated youth
مفادات کی اس جنگ و جدل میں غریبوں کا استحصال ہو رہا ہے ۔ نوجوان نسل بے چینی و بے قراری کی دلدل میں دھنس رہی ہے ۔ میرے دفتر میں اکثر نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں مشورے کے لیے آتے رہتے ہیں ۔ ان میں بیشتر مایوسی و ناکامی کی اتھا ہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔ انکی باتوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی کار کردگی سے قطعی خوش نہیں ہیں بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حکمرانوں کے ترقیاتی منصوبوں سے نالاں ہے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بعد از تعلیم و تربیت روزگار اور باوقار زندگی بسر کرنے کی سہولتیں میسر ہوں ۔ جو کہ ابھی تک تشنہ لب ہیں ۔ سچی حقیقت یہ ہے کہ مستحقین نوجوانوں کو کچھ نہیں مل رہا ۔ روزگار کی جتنی بی اسکیمیں منظر عام پر لائی جاتی ہیں وہ سب کی سب امیروں کبیروں اور سیاستدانوں کے اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کے قبضے میں چلی جاتی ہیں ۔
بیت المال کے ووکیشنل تربیتی اداروں کے باہر لگی موٹر سا ئیکلوں کی لمبی اور بھاری بھرکم قطاریں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہیں ۔ یہ سب کے سب پاپوش مستحقین ہیں جو بیت المال کے پیسوں سے مزے اڑا رہے ہیں ۔یہاں تک میرا ذاتی مشاہدہ ہے ان میں شاید ہی ایک آدھ کسی مزدور ، غریب کسان کا بیٹا داخل ہو گیا ہووہ بھی غلطی کوتاہی سے ۔ میں خود ان اداروں میں کام کر چکا ہوں مجھے اس ساری صورت حال کا علم ہے ۔ یہ سلسلہ آج ہی سے نہیں بہت پرانا ہے اور اس بارے میں کسی جمہوری حکمران نے توجہ نہیں دی ۔ ایک نوجوان نے مجھے کہا کہ آپ اس مسئلے کو حکمرانوں کے نوٹس میں لائیں تا کہ ہم غریبوں کا استحصال ختم ہو ۔ جو کہ کبھی نہیں ہو گا ۔ چاہے میں اس مسئلے پر ہزاروں کتابیں بھی لکھ دوں ۔
Democracy
اسی لیے مجھے بھی جمہوریت سے نفرت ہوتی جا رہی ہے ایک نوجوان نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ اللہ کرے ملک میں پھر سے مارشلاء آ جائے اور جمہوریت کی گاڑی کا پہیہ جام ہو جائے ۔ میں نے اس سے پوچھا جان ! تم کو کیا سوجھی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہم نے مشرف کی مارشل لاء دیکھی ہے پہلے والی مارشلائیں تو آپ نے دیکھی ہوں گی کیا فرق محسوس کیا ہے آپ نے ۔ بس اور بس میں تفصیل میں نہیں جانا چاہوں گا اتنا کہوں گا کہ اگر سیاست دان یہی چال چلتے رہے تو مارشلاء کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جو عوام خود لے کر آئیں گے ۔