کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں استعمال شدہ درآمدی کاروں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مالی سال 14 کے دوران ملک میں استعمال شدہ کاروں کی درآمد 22 ہزار یونٹس ریکارڈ کی گئی جبکہ مالی سال1 5 کے دوران اس میں 10 ہزار آئٹمز کا اضافہ دیکھا گیا۔
کسٹم اپریزمنٹ ساؤتھ کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق مال سال 14-15 کے دوران درآمدی کاروں کی مالیت کی مد میں 19.4 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ پہلے آٹھ ماہ کے دوران 53.93 ارب روپے مالیت کی کاریں درآمد کی گئیں اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 21.126 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اس دوران ملک میں فروخت ہونیوالی مجموعی کاروں میں درآمدی کاروں کا شیئر 15 فیصد رہا۔ رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال کے دوران استعمال شدہ کارو ںکی درآمد میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 35 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی مالیت 218 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث آٹو انڈسٹری پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، فی کس آمدنی میں اضافے اور شرح سود میں کمی نے آٹو سیلز کو دوام بخشا ہے جبکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے بھی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں جاپان کی 660 سی سی کاروں کے پھیلاؤ میں انتہائی اضافہ دیکھا گیا ہے، درآمدی لگژری کاروں کو بھی اس دوران ملک بھر میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے، تاہم ان چھوٹی کاروں کو لگژری وہیکلز کی کٹیگری میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کی سرکردہ آن لائن وہیکلز مارکیٹ پلیس کارمودی کے مطابق مارکیٹ ایکسپرٹ کی رائے میں جاپان کی ایس یو وی اور ٹویوٹا لینڈ کروزر اس لسٹ میں سرفہرست ہیں۔ ایکسپرٹ اور لگژری کار ڈیلرز کے مطابق جاپانی ایس یو وی نے پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے جرمن لگژری سیلون کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔کار مودی نے مالی سال14-15کے دوران پاکستان میں لگژری ہائبرڈ وہیکلز کی طلب میں اضافہ دیکھا،تاہم رواں برس ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے باعث ان کاروں کی طلب میں کمی دیکھی جارہی ہے۔
کارمودی کے مطابق سیڈان کے شیئر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، بہترین قیمت کے باعث Audi A3 اور A4 سیریز چھوٹے انجن کے ساتھ لگژری وہیکلز میں زیادہ پسند کی جارہی ہیں۔ مارکیٹ اسٹیک ہولڈرز حکومت کی جانب سے نئی آٹو پالیسی کے منتظر ہیں جو کہ گزشتہ تین برسوںسے تبدیل نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار غلام مرتضی خان جتوئی اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ نئی آٹو پالیسی میں نئی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت اس ضمن میں پہلے ہی چند غیر ملکی کار ساز کمپنیوں سے بات چیت کرچکی ہے۔
موجودہ آٹو پالیسی کے مطابق درآمدہ شدہ کاروں کیلیے تین برس کی ایج لمٹ ہے جبکہ امپورٹرز اس ایج لمٹ میں یقینی طور پر اضافے کے خواہاں ہیں تا کہ درآمد شدہ کاروں کو عام افراد کیلیے مزید با سہولت بنایا جاسکے۔ کارمودی پاکستا ن کے ایم ڈی راجہ مراد خان کے مطابق درآمدی کاروں کے باعث مقامی کاراسمبلرز کیلیے مقابلے کی فضا مزید سخت ہوتی جارہی ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلیے مقامی اسمبلرز کو اپنی مصنوعات کے معیار اور خصوصیات میں یقینی طور پر اضافہ کرنا ہوگا جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ سوزوکی اپنے پرانے ماڈلز کی جگہ نئے ماڈلز متعارف کرانے جارہی ہے اور یہی رجحان دوسرے اسمبلرز کو بھی اپنانا ہوگا۔
مارکیٹ ماہرین کے مطابق سوزوکی کی جانب سے لیانا،مہران اور کلٹس کے ماڈلز کی تبدیلی سے مارکیٹ میں مسابقتی عمل پیدا ہوگا،سوزوکی رواں برس کے اختتام تک کلٹس کی جگہ Celerio کار لینے جارہی ہے اور ان اقدامات کے باعث نہ صرف مقامی کاروں کے معیار میں بہتری آئے گی بلکہ قیمتوں کے اعتبار سے بھی خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔