تحریر: سمیعہ رشید ہم اس قدر سست، کاہل اور آرام پسند ہو گئے ہیں کہ اپنے حصے کا کام بھی اوروں کے کندھے پر لاد کر خود ہر کام سے بری الزمہ ہو جانا چاہتے ہیں. ہم ہر معاملے میں یہ چاہتے ہیں ہمیشہ دوسرے ہی ہمارے لیے کریں ہم خود کچھ نہ کریں. چاہے وہ رشتے نبھانے کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو. اپنا حق تو ہم بہت ڈھرلے سے مانگتے ہیں مگر رشتوں کے معاملے میں اپنے فرائض کی ادائیگی سے کوتاہی ہی برتے نظر آتے ہیں. آج جسکو بھی دیکھو یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے انسانیت مر گئی ہے خون کے رشتوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں. خون سفید ہو گئے ہیں. زمانہ بدل گیا ہے.
حقوق انسانی مسمار ہو رہے ہیں. کوئی کسی کا نہیں رہا. اب صرف نام کے رشتے ہیں. ہر دوسرے بندے کا یہی رونا ہے. مگر یہ سب کہتے اور سوچتے وقت ہم یہ یاد رکھنا بھول جاتے ہیں کہ خود ہم نے کیا کیا رشتوں کو بچانے کیلیے؟ ایک وقت تھا جب سب ملکر رہتے تھے. ایک خاندان کی طرح. جسکا سرپرست ایک بڑا بزرگ ہوتا تھا جو گھر کے سب فیصلے کرتا تھا. اتنے بڑے گھر میں ایک ہی چولہا جلتا تھا سب کا کھانا ساتھ ہی بنتا تھا. تب ذہنی تھکاؤ، کاروبار کی الجھنیں،ڈپریشن جیسی بیماریاں نہ ہونے کی برابر ہی تھیں. دل کے امراض کی نوبت ہی نہیں آتی تھی. لوگوں میں خلوص و محبت عام بات تھی. ایسا نہیں تھا کہ اس دور میں کوئی مشکلیں نہیں تھیں سکون ہی سکون تھا. تب بھی دنیا اور ملک دونوں کے حالات خراب ہوا کرتے تھے.
Parents Rights
اب تو جنگ وغیرہ کم ہوگئی ہیں تب تو ہر وقت جنگ کے خطرات سروں پر منڈلایا کرتے تھے. مگر تب بھی لوگ خوش تھے. کوئی بھی مشکل آتی مل کر سامنا کرتے. مگر اب رشتوں کو بس مجبوری سمجھا جاتا ہے. ہر کوئی اسے زنجیر سمجھتا ہے. اس سے چھٹکارا چاہتا ہے. مغرب کی دیکھا دیکھی جوائنٹ فیملی کا رواج اب ختم ہوتا جارہا ہے. فرد واحد اپنی ذات تک ہی محدود ہوگیا ہے. اولاد جوان ہونے کے بعد والدین سے الگ ہونا چاہتی ہے اور الگ گھر میں رہنا چاہتی ہے. والدین جو بچوں کو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتے ہیں وہی بچے اپنی جوانی میں والدین کو خدا کے سہارے پر چھوڑ کر الگ گھر بسا لیتے ہیں جس میں انکے والدین کی کوئی جگہ نہیں ہوتی. اور اگر جائیداد کی لالچ میں کوئی بیٹا ساتھ رکھ بھی لے تو والدین کے ساتھ نوکروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے. اور جبکہ کچھ والدین اولاد پیدا کرکے بس بھول ہی جاتے ہیں.
بزنس اور سوشل مصروفیات کے نام پر اولاد کی گھر کی آیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں. پیسے کو ہی بس ضرورت زندگی گردانتے ہیں. سمجھتے ہیں اگر پیسہ دے دیا تو اولاد کے سب حق انہیں دے دیے. ایسے بچے کی پرورش پھر کیا ہوگی؟ تنہائی میں پلا بڑھا بچہ آگے جاکر خاندان کی اہمیت کیسے سمجھے گا؟ جوائنٹ فیملی میں پرورش پانے والے بچے اگر کسی وجہ سے کسی ایک کے پیار سے مرحوم بھی رہ جائیں تو کسی اور بڑے کی جانب سے ملنے والا پیار اس خلا کو پر کر دیتا ہے.
Family Relationships
پرورش میں کوئی کسر نہیں رہتی. خاندان کی اہمیت کی اندازہ اس سے بات سے لگا لیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صہ نے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کو سخت ناپسند فرمایا. مگر اب رشتہ داروں کو تو لوگ پہچانتے ہی نہیں. قطع تعلق تو اس سے پیچھے کی بات ہے.
اب تو ایک گھر میں رہنے کے باوجود ایک بھائی یہ نہیں جانتا کہ اسکا دوسرا بھائی کیا کرتا ہے؟ یا پھر اسکی تعلیم کیسی جارہی ہے. سب ضرورت کے تحت بس رشتوں کے نام سے واقف ہیں. اب تو یہاں تک بھی نوبت آگئی ہے کہ ایک بیٹا ماں کا قتل کرکے خود کو حق پہ سمجھتا ہے. اور کوئی ماں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کا گلہ دبا کر اسے ابدی نیند سلا دیتی ہے تو کوئی بھائی بہن ملکر اپنے بھائیوں کو جائیداد کی لالچ میں آگ لگا دیتے ہیں. اس سب کی وجہ رشتوں کے درمیان کی دوری ہی ہے.
ہم اپنا حق تو چاہتے ہیں پر ہم پر دوسرے رشتوں کے کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اس کو نبھانے میں مکمل طورپر ناکام ہیں. رشتے تو خدا کا تحفہ ہوتے ہیں جو پیدا ہوتے ہی ہمیں بن مانگے مل جاتے ہیں اس کیلیے ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑتا.مگر انہیں سنبھالنے کی انہیں جوڑے رکھنے کی ذمہ داری بھی تو ہم پر عائد ہوتی ہے. اگر ہم یہ سوچیں کہ فلاں رشتے سے ہمیں کیا ملا. فلاں نے یوں کیا تو کیا ایسا کرنے سے کچھ سنور جائے گا؟ بالکل نہیں. ہم بھی تو کسی کیلیے فلاں میں شمار ہوتے ہیں.
ہم پہ بھی تو کچھ فرائض ہیں ہم اگر اپنے سے جڑے لوگوں کو انکے حق دیں گے تو ہی ہمیں ہمارے حقوق ملیں گے. رشتوں سے بڑھ کر کبھی بھی کچھ نہیں ہوتا. نہ ذاتی سکون،نہ شہرت نہ دولت. اگر رشتوں کی اتنی اہمیت نہ ہوتی اللہ کبھی بھی حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح نہ دیتا. مسلے مسائل تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں مگر خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے خاندان ہوتے ہیں.
Old Age
رشتوں کا مزید خون ہونے سے بچانے کیلیے رشتوں کو بچانا بہت ضروری ہے. ایک ہوکر رہنے کی ضرورت ہے. ایک خاندان کی طرح. ہم نہیں جانتے نہ ہی مانتے ہیں کہ مغرب کیا کہتا ہے. وہاں کیسے رہا جاتا ہے. ہم تو بس اتنا جانتے ہیں ہمارے اسلام میں کیا ہے. مغرب کا کیا وہ تو والدین کو اولڈ ہوم میں چھوڑنے کی تربیت دیتا ہے. اسلام تو بڑھاپے میں بھی والدین کے آگے اف تک کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا. رشتے ایک ہی صورت میں مضبوط ہوتے ہیں جب اپنے فرائض کو اپنے حقوق پر برتری دی جائے. دنیا میں رہنا ہے تو رشتوں کے ساتھ جیو،اکیلا تو بندہ قبر میں بھی ہوتا ہے.