بھوک نگل جاتی ہے

Hunger

Hunger

تحریر : نسیم الحق زاہدی
کچھ دن پہلے ایک حقیقت پڑھنے اور سننے کو ملی مگر آسکر ایوارڈ ‘ اور حقوق نسواں کے جشن نے ہر چیز کو حنوط کر رکھا ہوا تھا مگر آج جیسے ہی جذبات، احساسات کی تمازت پڑی سبھی غیر فعال مناظر متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں ملتان میں بھوک کے ہاتھوں مجبور باپ نے قسم دی اور فرمانبردار بیٹی نے زہر بھرا گلاس پی لیا آج ایک بار پھر لکھتے ہوئے اندر سے کچھ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے پورے پاکستان میں بلخصوص ملتان کے اندر اتنے مزرات، در بار، مساجد، مدراس ہیں کہ اگر ان کا ماہانہ چندہ اکٹھا کرکے افلاس زدہ لوگوں میں بانٹ دیا جائے تو کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کو قسم نہیں دے گا آج ان اشتہاری علماء اکرام سے ایک سوال ہے جن کا ایک فتویٰ لاکھوں روپے میں فروخت ہوتا ہے اور جو ٹی۔وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر انسانی حقوق کی بڑی بڑی با تیں کرتے ہیں محبت، اخوت بھائی چارے کا درس دیتے ہیں

بیشک خود کشی ہر صورت میں حرام ہے مگر اس باپ کی کیفیات کیا ہونگی ؟ جس وقت اس کے جگر کے ٹکڑے اس سے روٹی کا سوال کرتے ہونگے آج اس بات کا شدت سے احساس ہوا ہے کہ بھوک تہذیب کے اداب بھلا دیتی ہے اور مفلسی وہ واحد مسلک ہے جس میں آپ بھوکے کے سامنے مندر کی پرشاد، محرم کی نیاز ، رجب کے کونڈے ، ربیع الاول کی شرینی دربار کا لنگر تبلیغی جماعت کی دال چپاتی رکھ دیں وہ بنا سوال کئے چپ چاپ کھالے گا کیونکہ بھوک وہ واحد چیز ہے جو انسان کی عز ت نفس کو ختم کر دیتی ہے بھوک کے آگے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی

کیونکہ زندگی کو بچانے کیلئے ہر حرام چیز کھانا جائز ہے آج لوگ مزرات ، درباروں پر ہزاروں چادریں چڑھاتے ہیں مگر کسی ماں ، بہن بیٹی کے پھٹے ہوئے کپڑے نظر نہیں آتے لوگ لا کھوں روپے مساجد مدراس میں بظاہر اللہ کو خوش کرنے کے لئے لگا دیتے ہیں مگر اس کی مخلوق کی بھوک کی طرف نہیں دیکھتے اُس بچے کی بھوک کا احساس نہیں ہوتا جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے اندر گلے سٹرے اور بد بودار پھل یا سوکھی ڈبل روٹی کے ٹکر ے تلاش کرکے کھا رہا ہوتا ہے ماناکہ چند پیشہ وار بھکاریوں نے حقداروں کو بھی محروم کر دیا ہے

Hungry Children

Hungry Children

مگر افلاس زدہ چہرے دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں کیونکہ حسرتوں ، نا امیدیوں اور ناکامیوں نے ان سے احساس زندگی چھین لیا ہوتا ہے میں اکثر اپنے کالمز میں حضرت عمر فاروق کی دور ِ حکومت کا ذکر کرتا ہوں گو کہ اسلام میں خلافت کا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد سے شروع ہوا تھا لیکن باقاعدہ منظم حکومت کا آغاز حضرت عمر فاروق کے عہد سے شروع ہو حضرت عمر کی دور ِ حکومت 22 لاکھ مر بع میل پر مشتمل تھی اور آپکی خلافت جمہوریت طر ز حکومت سے مشابہ تھی آپ کا مشہور قول ہے کہ اگر میری دورِ حکو مت میں دریائے نیل کے کنارے ایک کتا بھی سے مرگیا تو قیامت کے دن عمر کو اُس کا بھی حساب دینا ہوگا یہ محض قول ہی نہیں تھا بلکہ آپ ایک دفعہ خود بیمار ہوگئے لوگوں نے علاج کے لئے شہد تجویز کیا بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن بلا اجازت آپ نہیں لے سکتے تھے

اس کے لئے آپ نے مسجد نبوی میں جا کر لوگوں سے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں تھوڑ ا سا شہد لے لو ں یہ حال تھا اُس حاکم وقت کا تھا جس نے آدھی دنیا پر حکومت کی اور قصیرو کسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو اسلام کے ممالک کے ورثہ میں شامل کیا خود سوکھی روٹی کے ٹکڑے کھا کر عوام کی خوشحالی اور فارغ البالی کا خیال رکھا حدیث مبارکہ ہے کہ بہترین صدقہ کسی بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے اور یہ افضل ترین صدقہ ہے یہ کسی دربار، درگاہ ، مسجد، مدر سہ پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کیونکہ زندگی میں بعض موقع ایسے بھی آ جاتے ہیں جب عزت نفس کی دھجیاں اُڑ جاتی ہیں اور دین دھرم سب پاپ ہو جاتا ہے اور وہ مقام ِ افلاس ہے جس سے نبیوں نے پناہ مانگی کیونکہ بھوک نگل جاتی ہے عبادت، ریاضت، تقویٰ، دین، دھر م، اخلاص، ورد، وظائف سب کو یہ معاشی اور معاشرتی نا انصافیوں کی بدولت ہے اگر آج یہ وڈیرہ، جاگیردارنہ نظام کا خاتمہ ہو جائے زکوٰة کا باقاعدہ نظام ہو تو کوئی بھی شخص افلاس کے ہاتھوں نا تو خود زہر کا پیالہ پئے گا اور نہ ہی اپنی اوالاد کو قسم دے کر زہر کا پیالہ پلائے گا

روٹی، کپڑا مکان ریاست کی ذمہ داری ہے پہلے ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے پھر عوام کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائے حبیب جالب کہ ان اشعار کے ساتھ اجازت۔
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسانوں کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
سر آنکھوں پہ ہم اُس کو بیٹھا لیتے ہیں اکثر
جس کے وعدوں میں صداقت نہیں ہوتی
ہر شخص اپنے سر پر کفن باندھ کر نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی

Naseem ul Haq Zahidi

Naseem ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی

Glass Poison

Glass Poison