تحریر: ملک نذیر اعوان خوشاب قارئین محترم عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے گھر سے عدل کرے اگر ہمارے رویوں میں عدل ہو جائے تو وہی گھر اچھا ہو سکتا ہے۔اور انسان جب اپنی ذات سے عدل کرے گا تو بہت سی برائیوں سے بچ جائے گا۔حضور پر نور آقا دو جہاں سرکار دو عالم ۖ کا فرمان مبارک ہے۔ جو شخص عدل کرے گا وہ قیامت کے دن نور کے منبر پر ہو گا۔جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔اور ہمارے پیارے آقا ۖ نے اپنی حیات طیبہ میں عدل و انصاف کے ساتھ کام کیا۔ناظرین آج جس طرح ہمارے معاشرے میں بگا ڑ آ رہی ہے مثال کے طور پر ہم لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہمیں کسی دوست،یا رشتہ دار کے ساتھ گواہی دینی پڑے تو ہم اکثر جھوٹ بولتے ہیں۔
اور قرآن پاک میںارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا ترجمعہ یہ ہے ،،کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو،ہر چیز میں عدل کروچاہے تمہیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ گواہی بھی دینی پڑے۔قارئین مشاہدہ کیا جائے تو کائنات کا سارا نظام عدل و انصاف پر ہے یہاں تک کہ چاند اور ستارے بھی عدل و انصاف پر قائم ہیں۔اسلام میں ہمیں عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ایک مرتبہ حضور سرو کائنات قلب سینہ سرکار دو عالم ۖ کی بارگاہ رسالت میںایک فاطمہ نامی عورت کو چوری کے الزام میں لایا گیاتو آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اورآپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا جرم کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرماتا۔قارئین محترم آج ہمیں اپنے معاشرے کے حالات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کاش ہمارے ملک میں بھی عدل و انصاف اور اسلامی قانون نافذ ہو جاتا۔
Corruption
آج ہمارے معاشرے میں کرپشن ،لوٹ مار عروج پر ہے۔اور عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔کاش ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اندر بھی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی سوچ آجاتی ناظرین ایک مرتبہ آپ کو دوا کے لیے شہد کی ضرورت تھی تو آپ نے اپنی رعایا سے پوچھا کہ مجھے شہد چاہیے۔آپ نے اپنی خلافت میں عدل و انصاف کی ایک مثال قائم کر دی۔ایک موقع پر حضرت عمر فاروق کو رومی وفد ملنے کے لیے آیا تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ کے امیر المومنین کہاں ہیں ایک شخص نے کہا ہمارے خلیفہ پیچھے گلی میں گارا اٹھا رہے ہیں۔جب وفد یہاں پر پہنچے تو آپ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے۔
رومی وفد نے آپ سے پوچھا کہ امیر المومنین آپ کو یہاں پر نیند آجاتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو مخمل اورنرم بستروں پر بھی نیند نہیں آتی ہے آپ نے رومی وفد کو جواب میں ارشاد فرمایا کہ جس ملک میں ظلم و ستم ہو رہا ہو ،عدل و انصاف قائم نہ ہو وہاں کے حکمرانوں کومخمل کے نرم بستروں پر بھی نیند نہیں آتی ہے۔اور جس معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو وہاں کے حکمرانوں کو کانٹوں پر بھی نیند آ جاتی ہے۔اس سے بڑھ کر عدل و انصاف کی کیا مثال ہے۔لیکن ناظرین ہم تو صرف دعا تک محدود ہیں۔اللہ پاک ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہدایات دے۔یہ بات بھی قابل غور ہے ہدایات اسی کو آتی ہے۔جو اللہ پاک سے ہدایات مانگتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہدایات اللہ کریم صرف متقی اورپرہیز گار لوگوں کو دیتا ہے۔قارئین آخر میں دعا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی عدل و انصاف اور اسلامی قانون نافذ ہو جائے تاکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے اور حکمرانوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔