پنجابی فلم “ووہٹی دا نوکر” کا عملی نفاذ

Couple Arguing

Couple Arguing

تحریر : ملک ارشد جعفری
پنجاب میں حقوق نسواں بل مشہور پنجابی فلم “ووہٹی دا نوکر”کا عملی نفاذ ہے جو کہ بقول مولانا فضل الرحمن گھر سے خادم اعلیٰ پنجاب کا ایسا کارنامہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مسلم معاشرے میں ایک محفوظ خاندانی نظام راج ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں طلاقوں کی شرح نہایت کم ہے جس معاشرے کی نقل کرتے ہوئے ہمارے ہاں نت نئے تجربات کیے جارہے ہیں وہاں روزانہ لاکھوں خواتین کو طلاق سے دو چار ہونا پڑرہا ہے جس معاشرے کو ہم کاپی کر رہے ہیں بد قسمتی سے ہمارے پنجاب کے حکمران مغرب کو خوش کرنے اور اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے غیر ملکی آقا کے اشاروں پر ہمارے معاشرے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے کے لیے حقوق نسواں کے نام پر ایسے بل لارہے ہیں جو ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مرد کو گھر کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے جس نظام کو ہمارے ہا ں راج کہا جا رہا ہے اس میں مادر پدر آزاری دے کر خواتین کو سر اور بے راہ روی کی طرف مسائل کرنے کی ترغیب ملتی ہے بعض غیر ملکی فنڈ پر چلنے والی این جی او کا یہ کارنامہ ہے کہ رہ ہمارے معاشرے کی بیرون ملک جو تصویر دکھا رہی ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں سب سے مظلوم طبقہ خواتین کا ہے جو خاندانی ظلم کا شکار ہے حالانکہ حالات اس کے ہر عکس ہیں دو چار تشدد اس کے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی معاسرے کو حرف تنقید بنانا کسی طرح بھی درست نہ ہے۔

مغرب کی خواتین سب سے زیادہ مظلوم ہیں جہاں اک 80سال کی خاتون کو بھی اپنی زندگی گزارنے کیلئے کہیں نہ کہیں کام کرنا پڑتا ہے اور ان کی اولاد ان کو چھوڑ کر اپنی زندگی میں مگن ہو جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں خواتین کو جو احترام اور عزت دی جاتی ہے اس کو ہمارا میڈیا ہائی الرٹ نہیں کرتا جبکہ چند ایک منفی رویوں پر مشتمل واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ہمارے ہان ایک خاندانی نظام اتنا مضبوط ہے کہ اس کو ختم کرنے کیلئے جو حقوق نسواں بل پاس کیا گیا وہ پنجاب میں طلاقوں کی شرح میں اضافے کا باعث بنے گا۔

Court

Court

اگر کوئی خاتون مذکورہ بل کے خواتین کا سہارا لے کر اپنے خاوند کو گھر بدر کر کے گئی کیا ایک غیرت مند خاوند ایسی خاتون سے دوبارہ رجوع کرے گا جو اس کی عزت و تق قیر کا مٹی میں ملانے کا باعث بنے گی بد قسمتی سے ہمارے ہاں ہمارے تہذیب وتمدن معاشرتی اقتدار کو دیکھے بغیر اندھا دھند مغرب کی تقلید کی روایت جاری ہے جو ہمارے معاشرے کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے ہمارے ہاں پنجابی کی ایک مشہور فلم “ووہٹی دا نوکر “خاوند کی مظلومیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے موجودہ پاس کیا گیا قانون شاید اس فلم کی کہانی کو حقیقی روپ دینے کیلئے کافی ہوگا جس میں گھر کا سربراہ بے قید ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔

معلوم نہیں ہمارے گھر سے خادم اعلیٰ جو کہ دو خواتین کے شوہر ہیں اگر بیک وقت دو خواتین کی شکایت ہو جاتے تو خادم اعلیٰ کو چار دن گھر سے باہر نکالنے پڑیں گے خدارہ ہوش کے ناخن لیںایسے فیصلے نہ کریں جس سے ہمارے معاشرے میں اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہو ہم مانتے ہیں شریعت میں عورت کا مقام بہت بلند ہے اور شرعی قرانین پر اگر چلا جائے تو عورت بہ پردہ ہو کر گھر سے نکلے لیکن ہم اس طرف توجہ اور نگاہ نہیں دوڑاتے کیونکہ ہم گھر سے مجبور ہیں ورنہ عورت گھر تک محدود رہے شریعت میں حقوق بہ شک جس طرح مرد کے ہیں۔

اسطرح عورت کے بھی حقوق ہیں لیکن مرد کا رتبہ اس لیے شریعت میں بلند رکھا گیا ہے کہ وہ حاکم ہے اور حاکم بھی پائوں میں نہیں بیٹھتا اور خاوند کی شریعت میں مجازی خدا کا لقب دیا گیا ہے عورت کا بہت بڑا رتبہ ہے کونکہ عورت ماں بھی ہے بہن بھی ہے اور اسکی وجہ سے معاشرے میں مرد کا وجود ہوا لیکن شریعت نے یہ نہیں اجازت دی کہ عورت اپنی من مانی کرئے اور بہ پردہ ہو کر بازاروں کی سیرکرے اور غیر مردوں کو ہاتھ ملائے یہ شریعت اور اسلامی قوانین کے خلاف ہے اور کوئی غیر ت مند انسان یہ برداشت نہیں کرسکتا ہے۔

Europe Women

Europe Women

صرف مغربی دنیا میں ہے کہ باپ اور بھائی بیٹھے ہوں اور گھر کی عورت غیر مرد کے ساتھ سیر کے لیے نکل جائے اور مرد ایک باوا کی طرح خاموش تماشائی بنا رہے اور اس قانون کے تحت اگر عورت مرد کے 2دن کے لیے گھر سے نکال دے اور وہ اگر تھوڑی سی غیرت دکھتا ہو تو پھر حویلی کے اندر پائوں نہیں رکھے گا ہاں یہ ضرور قانون بنا ئیں کہ عورت کو اس کے جائز حقوق کے علاوہ خاندانی وراثت میں بغیر کسی توالت میں حصہ دیا جائے

یہ نہ ہوکہ اسکے شو ہر کے مرنے کے بعد جس طرح کئی عورتیں مظلوموں کی طرح زندگی گزار رہی ہیں اور کورٹ کچہری کے دھکے کھا رہی ہیں۔ اپنے حق کے لیے اس پر فوری غور کر کے قانون میں ترامیم کی جائے۔

جس سے معاشرے میں مظلوم عورت کی آئندہ کی زندگی آسان ہو جائے اور جو اسکے شوہر کی جائیداد میں غیر قانونی طریقہ ڈاکہ ڈالنا چاہیں انہین سخت سے سخت سز تجویز کی جائے جس سے عوام کی نظروں میں حکومت وقت کے لیے عزت بھی بڑے اور عورت کے حقوق بھی محفوظ ہو جائیں صرف کڑا پہنانے اور گھر سے نکالنے سے عورت کا مقام بلند نہیں ہوتا۔

Malik Arshad

Malik Arshad

تحریر : ملک ارشد جعفری
0321-5215037