راولپنڈی (محمداشفاق راجا) نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری اور مناپلی سے تنگ والدین کی درخواست پر ایجوکیشن اتھارٹی بل منظور ہونے کے بعد پنجاب بھر کے نجی تعلیمی اداروںپرلاگو ہو گیا۔تعلیمی مافیا نے ایجوکیشن اتھارٹی بل واپس کرانے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔ والدین بھی میدان میں آگئے ایجوکیشن اتھارٹی بل واپس نہ لیا جائے، یکساں نظام تعلیم کیلئے قدم اٹھاتے ہوئے یکساں نصاب نافذ کردیجئے اور امتحانی نظام میں پائی جانے والی کمی کو دور کرنے کیلئے عملی اقدامات شروع کیجئے۔ اتھارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے اگر کوئی کسر رہ گئی ہے، اس کو بھی پورا کرتے ہوئے اس کو مزید مضبوط کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے سے گریز نہ کیا جائے۔
نجی تعلیمی اداروں کے بنیادی مسائل کے حل کی بھی ضرورت ہے ۔میاں شہباز شریف سے مطالبہ کر ڈالا ہے۔زرائع کے مطابق نجی تعلیمی اداروںمیں تعلیم دلوانے والدین نے8 سال قبل میاں شہباز شریف سے ایجوکیشن اتھارٹی قائم کرنے کی درخواست کی تھی۔زرائع کیمطابق 8 سال پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب نے ایجوکیشن اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی تشکیل حکومت نے والدین کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی سے ایجوکیشن اتھارٹی بل منظور کیا ہے۔ ایجوکیشن اتھارٹی کے قیام میں آٹھ سال لگے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری اور مناپلی سے تنگ والدین نے میاں شہباز شریف سے ایجوکیشن اتھارٹی قائم کرنے کی درخواست کی تھی۔ 8 سال پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب نے ایجوکیشن اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی تشکیل کیلئے کمیٹی بنانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے بل اسمبلی میں لانے کا حکم دیا تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اتنے طاقتور ہیں کہ وزیراعلیٰ کی سنجیدگی کے آگے بھی انہوں نے عرصہ تک پل باندھے رکھا۔
والدین کی دعائیں رنگ لائیں اور 2016 کا سورج ایجوکیشن اتھارٹی کے قیام کی منظوری مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب اسمبلی سے لینے میں کامیاب ہوگئی، اللہ بھلا کرے لاہور ہائی کورٹ کا جس نے نجی تعلیمی اداروں کو سکیورٹی اور دیگر امور کو جواز بناکر ماہانہ فیسوں میں اضافہ کرنے سے روک رکھا تھا۔ اوپر سے پنجاب حکومت کی جدوجہد رنگ لائی، سیکرٹری ایجوکیشن عبدالجبار شاہین کی مخلصانہ کوششیں رنگ لائیں اور نجی تعلیمی اداروں کو قواعد و ضوابط کا پابند کردیا گیا ہے۔ بی این پی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے والدین محمد زرین ، راجا سلیم ، چوہدری ریاست اور دیگر نے کہا کہ عرصہ سات آٹھ سال سے ریگولیٹری اتھارٹی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے ایجوکیشن مافیا نے اب آخری کوشش کے طور پر ہڑتال کا پتا استعمال کیا ہے۔ اے گریڈ اور بی گریڈ کی تقسیم بھی نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے خود ہی کرلی ہے۔ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام پنجاب حکومت کا بہت بڑا اقدام ہے۔
خدارا اب ہڑتال کے نام پر نئے حربوں سے بلیک میل نہ ہو جائے اور ایجوکیشن بل جو منظور ہوچکا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور بل واپس لینے کے وعدوں کی خبروں کی تحقیقات کروائی جائیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے کردار اور خدمات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا بڑا رول ہے اس کی قدر کی جانی چاہئے لیکن ساتھ ساتھ دو مرلہ کے سکول، تین مرلہ کے سکول، پانچ مرلہ کے سکول، 10 مرلہ کے سکول، ایک کنال کے سکول اور دو کنال یا اوپرکے سکولز کیلئے قواعد یکساں طور پر نافذ کئے جائیں۔ 2 مرلہ سے 10 مرلہ کے سکول اگر گراؤنڈ نہیں دے سکتے، یہ جواز درست ہے، مگر اساتذہ کی بھرتی کا طریقہ کار تو طے کیا جاسکتا ہے۔ سکول کی ماہانہ اور سالانہ کارکردگی کا جائزہ تو لیا جاسکتا ہے۔ 10 مرلہ کے سکول میں صاف پانی کا فلٹر والا کولر تو لگایا جاسکتا ہے۔
دو کنال اور اس سے اوپر کے سکولوں کیلئے بھی ریگولیٹری اتھارٹی کو سخت قواعد بنانے چاہئیں۔ دو مرلہ، دو کنال، دس کنال کے سکولوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ اخلاقی قدروں کا خیال کس قدر رکھا جا رہا ہے۔؟ سکیورٹی کے کیا انتظامات ہیں؟ نصاب کون سا پڑھایا جا رہا ہے؟ ان باتوں پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔ اساتذہ کی بھرتی کا طریقہ طے کرلیا جائے، تعلیمی قابلیت کا معیار مقرر کیا جائے، ماہانہ چھٹیوں کا شیڈول طے ہونا چاہئے، تعلیمی اداروں کی سالانہ چھٹیوں کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے۔ صوبائی وزیر قانون اور سیکرٹری تعلیم سے درخواست کرنی ہے کہ والدین تعلیمی اداروں کی بلیک میلنگ سے سخت نالاں ہیں، آپ آگے بڑھیں گے تو والدین آپ کی پشت پر آ جائیں گے۔
اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے، خدا کیلئے ہمیشہ کیلئے ایجوکیشن مافیا کا گٹھ جوڑ توڑ دیجئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی طرف سے بنائی گئی نام نہاد قسم کی تنظیموں کی طرف سے 20 طرح کے ٹیکس ادا کرنے کے پروپیگنڈے کی بھی تحقیقات کروائیں۔ آخر پرائیویٹ سکول اور کالج کون کون سے ٹیکس دے رہے ہیں۔خادم اعلیٰ سے درخواست ہے سکولوں کے گریڈ کی تقسیم اگر ان تنظیموں نے خود ہی کرنی ہے تو اس کے مطابق قواعد بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آخر میں صوبائی وزیر تعلیم اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے نجی تعلیمی اداروں کے امتحانی نظام کو درست کرنے کی درخواست کرنی ہے۔
ایجوکیشن اتھارٹی اگر اللہ اللہ کرکے بن ہی گئی ہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یکساں نظام تعلیم کیلئے قدم اٹھاتے ہوئے یکساں نصاب نافذ کردیجئے اور امتحانی نظام میں پائی جانے والی کمی کو دور کرنے کیلئے عملی اقدامات شروع کیجئے۔ اتھارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے اگر کوئی کسر رہ گئی ہے، اس کو بھی پورا کرتے ہوئے اس کو مزید مضبوط کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے سے گریز نہ کیا جائے۔ نجی تعلیمی اداروں کے بنیادی مسائل کے حل کی بھی ضرورت ہے، اس کیلئے نجی تعلیمی اداروں کی تنظیموں سے استفادہ کرتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کے حقیقی مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دی جائے۔
ہر ماہ، ہر سال فیس بڑھانے کی روایت ختم کرتے ہوئے سالانہ کارکردگی اور سہولتوں کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کے ساتھ فیس بڑھانے کو مشروط کرتے ہوئے اساتذہ کی تعلیم کا معیار بھی مقرر کیا جائے۔ یقیناًاس سے بہتری آئے گی، والدین بھی خوش ہوں گے اور نجی تعلیمی ادارے بھی ناخواندگی دور کرنے میں موثر کردار ادا کرسکیں گے، لوٹ مار کا پروپیگنڈا بھی خود بخود دم توڑ جائے گا، انشاء اللہ! گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس لینے کا جواز کیا ہے بعض سکول بچوں سے فیسیں 3ماہ کی لے لیتے ہیں اساتذہ کو تنخواہ نہیں دیتے چھوٹے سکول اساتزہ کو دو سے تین ہزار ادا کررہے ہیں ان کے لئے قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔ خادم اعلیٰ قدم بڑھائیں پنجاب کے عوام آپ کا ساتھ دیں گے۔