تحریر : شاہد شکیل ناکردہ گناہ یا جرم کی پاداش میں اگر کسی بے قصور انسان کو قانون جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے یا جان بچانے والا مسیحا صحت مند انسان کو نفسیاتی مریض قرار دے کر پاگل خانے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے اور یہی سوچتا ہے کہ کہاں ہے قانون اور کون ہے مسیحا،لیکن دنیا میں کئی بار ایسا ہوا اور ہوتا ہے کہ معمولی سے غلطی کی سزا طویل عمر قید کی صورت میں جیل کی بند کوٹھری میں گزرتی ہے یا پاگل قرار دے کر مینٹل ہاسپیٹل میں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ان فیصلوں میں نہ صرف مخالف پارٹی بلکہ کئی معاملات میں ڈاکٹرز ،وکلاء اور ججز بھی شامل ہوتے ہیں جو چند روپوں کی خاطر کسی بھی بے گناہ کو مجرم اور ایک صحت مند انسان کو پاگل قرار دے کر تاحیات کال کوٹھریوں میں دھکیل دیتے ہیں با الفاظِ دیگر دنیا میں ہی ایک ایسی دنیا میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں جہاں نہ جینے دیا جاتا ہے اور نہ آسانی سے مرنا۔
جرمنی میں ہر سال تقریباً دو لاکھ سے زائد افراد کو انکی مرضی کے خلاف آہنی دروازوں کے پیچھے یعنی پاگل خانے میں دھکیل دیا جاتا ہے کیونکہ عدالتیں ایسے افراد کے جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود انہیں خطرناک انسان قرار دے کر سزا ئیں سناتی ہیں اور انہیں نفسیاتی مریض کا لقب دیا جاتا ہے ایسے بے قصور افراد کو سزا دلوانے میں انکے فیملی ممبرز،نگران ادارے ،پولیس ،وکلاء ،ڈاکٹرز اور ججز شامل ہوتے ہیں اور باہمی رضامندی سے ان کے ماتھے پر پاگل کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے ایسے افراد پر منشیات کا عادی ،بات بے بات ہر انسان سے جھگڑا مول لینا یا خود کشی کی کوشش جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سے کسی کو مختصر مدت اور زیادہ تر طویل مدت سزائیں دی جاتی ہیں۔
پولیس کسٹڈی میں تفصیل سے پوچھ گچھ کے بعد مخصوص کلینک پہنچایا جاتا ہے جہاں چوبیس گھنٹے کے اندر ڈسٹرکٹ کورٹ سے اجازت نامہ حاصل کیا جاتا ہے اجازت نامے میں مریض کے تمام کوائف مثلاً مرض کی نوعیت کو مکمل طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ کیوں ایسے افراد کو پاگل خانے میں داخل کرنے کا اجازت نامہ درکار ہے،اور مختصر مدت میں اس مریض کا ادویہ یا تھیراپی سے علاج اہم ہے،اجازت نامے کے بعد اور کچھ عرصہ پاگل خانے میں قیام کے بعد ثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی افراد کو گھر واپس جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے اور خطرناک مریضوں یا مجرموں کو طویل مدت کال کوٹھری میں ٹھونس دیا جاتا ہے، کئی بے قصور افراد بے گناہ ہونے کا دعوہٰ اور شدید احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن قانون اندھا ہوتا ہے۔
Jail Prisoner
جبکہ دوسری طرف کئی خطرناک اور عادی مجرم نہایت سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل حکام یا مینٹل ہاسپیٹل کے عملے اور ڈاکٹرز کو ہر طرح سے گزند پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ایسی صورت حال میں انہیں نارمل انسان کی لسٹ سے خارج کر دیا جاتا ہے، ادویہ اور تھیراپی کے زیر اثر محض امید کی جاتی ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر یہ پاگل شاید تندرست ہو جائیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے،کیونکہ ایسے مریض یا مجرم کو طویل عمر پاگل خانے میں رکھنے اور صحت یاب ہونے کے بعد باقی سزا جیل میں گزارنی ہوتی ہے ،ایسے مجرم عام نہیں بلکہ انتہائی خطرناک ہوتے ہیں جنہوں نے کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہو یا قتل میں ملوث پایا جائے۔رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں مجرموں کو جیل کی سزا سنانے سے قبل سائیکاٹری بھیجا جاتا ہے۔
عدالتیں جرم کی نوعیت دیکھ کر ہی فیصلہ سناتی ہیں تاکہ جیل کی سزا سے قبل مجرم مکمل طور پر صحت یاب ہو اور جان سکے کہ کیوں اسے پہلے سائیکاٹری اور بعد ازاں جیل بھیجا جارہا ہے،انیس سو نوے سے اب تک قصور واروں کی تعدا د میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور جیل کی بجائے پاگل خانے داخل کرنے کا رحجان بڑھا ہے تاکہ سماج اور معاشرے سے ایسے مجرموں کا قلع قمع کیا جاسکے اور انہیں نفسیاتی مریض قرار دینے کے بعد جیل کی سزا لازمی بھگتنا ہو گی ایسے مجرموں کو میڈیا میں مکمل تفصیلات کے ساتھ ہائی لائٹ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔میونخ میں ایک شخص نے خاتون کو قتل کیا جج نے اسے پندرہ سال کی سزا سنائی سزا مکمل ہونے کے بعد وہ بظاہر پرسکون زندگی بسر کرنے لگا۔
لیکن چند ماہ بعد شراب کے نشے میں دھت ہو کر دوبارہ ہاتھا پائی کی اور قتل کر بیٹھا ،پریس میں اس قتل کے خلاف عوام کے بیانات اس قدر نفرت آمیز تھے کہ جج نے ایسے مجرم کو کیوں کھلا چھوڑ دیا یہ کیسا قانون ہے اسکی نگرانی کیوں نہیں کی گئی اور تحقیر آمیز بیانات کے بعد جج نے مجرم کو دوبارہ پندرہ سال جیل کی سزا کے علاوہ تاحیات پاگل خانے بھجوانے کا حکم صادر کیا۔ایک دوسرے کیس میں ایک شخص نے اپنی بیوی جو بینک مینیجر تھی کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ وہ غیر قانونی طور پر رقم سوئیزر لینڈ منتقل کرتی ہے۔
Arrest
خاتون سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے الٹا اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ کر دیا کہ وہ پاگل ہے نفسیاتی مریض ہے کئی بار تشدد کیا وغیرہ شوہر کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور خاتون نے اپنے فیملی ڈاکٹر سے مل کر اسے مکمل پاگل قرار دے دیا جعلی اور جھوٹے مقدمے میں شوہر کو پہلے پاگل خانے اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی جیل میں اس شخص نے اپنے دوستوں کے توسط سے بیوی کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کئے اور جج کو پیش کر دئے لیکن خاتون کو باعزت بری کر دیا گیا۔
حالانکہ عورت کے خلاف تمام ثبوت موجود تھے ،شوہر پر دوبارہ جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا اور سزا میں اضافہ ہوا۔سائیکاٹری سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے نارملی ایسے واقعات کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور کسی بھی بے گناہ اور بے قصور انسان کو نہ تو عدالت سزا دے سکتی ہے اور نہ پاگل خانے بھیجا جاتا ہے۔
لیکن کئی افراد اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹرز، وکلاء اور ججز کو بھی منہ مانگی رقم کے عوض خرید لیتے ہیں اور جھوٹا مقدمہ دائر کرنے کے بعد مخالف پارٹی کو تاحیات جیل یا پاگل خانے پہنچانے کی آخری حد تک کوشش کی جاتی ہے،ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں کہ جھوٹے اور گناہ گار کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے اور بے قصور ،بے گناہ کو تاحیات مجرم ثابت کر کے جیل بھیج جاتا ہے یا پاگل خانے۔