تحریر: شاہ بانو میر ایک وقت تھا جب پاکستانی کرکٹرز کا عروج تھا ان کی کارکردگی دوبئی کا اسٹیڈیم آج بھی یاد دلاتا ہے . کھلاڑی کوئی بھی ہو وہ دشمنوں کو دہلا دیتا تھا . پھر وقت نے کروٹ لی اور دیگر اعلیٰ کارکردگی کے حامل اداروں کی طرح کرکٹ کو بھی نظر بد لگی اور ایسی لگی کہ مسلسل تذلیل مسلسل جگ ہنسائی مقابلہ شروع ہونے سے پہلے بلند و بانگ دعوےٰ اور میدان میں جاتے ہی ڈھیر سگریٹ پکڑو میں باری لے کر آیا والا معاملہ دکھائی دیتا ہے . اب کرکٹ کے آغاز میں دھمالیں ڈالتے نوجوان شاداں و فرحاں چہرے میدان میں دوسرے کھلاڑیوں کے ہاتھوں اپنے کھلاڑیوں کی بنتی درگت دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور پورے ملک میں ہلڑ بازی شروع کر دیتے ہیں. ہم ایسی قوم ہیں کہ جو ظالموں کو سر پے بٹھا لیتے ہیں اور پھر ان کی پست سوچ کا خمیازہ بھگتتے ہیں .
ہرادارے میں کرپشن کے بعد بربادی کی صورت بیرونی دنیا میں کھیل کے شعبے میں ہماری گرفت بہت کمزور ہے اور اسکا نفسیاتی اثر کھلاڑیوں پر براہ راست پڑتا ہے مضبوط لابنگ کی وجہ سے بھارتی کھلاڑی پورے اعتماد کے ساتھ دیگر اقوام کے لوگوں ًٰمیں ہردلعزیز ہیں . سارے مسائل سارے حالات سامنے رکھیں تو ناقص کارکردگی اسی بات کی متقاضی تھی جو دوبئی میں منظر ہم نے دیکھے اب ہم خود ہی حلیف ہیں خود ہی حریف ہیں . ہاریں تو غم نہیں کہ اپنا ہی ہم وطن ہے جیتیں تو دوہری خوشی کہ اپنا ہی ہم وطن جیتا . ہم نے کرکٹ کو گھر کا ادارہ بنا لیا جہاں سارے ممبران ہی پاکستانی ہیں سب کے سب ہی ہاریں یا جیتیں ٹرافی تو ہر حال میں ہمی کو ملے گی. یہ کمزور ذہن ہیں جو جلد ہار مان گئے .
Pakistan
بجائے کرکٹ کے ادارے کو مضبوط کرتے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کر کے انہیں پاکستان سے باہر دیگر اقوام عالم کے ساتھ کھلا کر ان کا اعتماد بحال کرواتے انہیں بہت آسان لگا کہ سب ہی میٹھا میٹھا ہو جو ہپ ہپ کر کے فٹا فٹ کھا لیا جائے کڑوا کڑوا تھو تھو کرنا نہ پڑے یہ لوگ کاش سوچتے کہ زندگی کی اصل بازی وہی جیتتا ہے جومد مقابل کو حریف کی حیثیت سے قبول کر کے میدان عمل میں محنت سے حکمت سے خود کو منواتا ہے . ادارے جب ذاتی رشتوں کی بندر بانٹ میں تقسیم ہوں تو سمجھیں اب ان کا خاتمہ قریب ہے . گھر رشتوں کی مضبوطی سے گھر لگتا ہے اور “”محکمہ”” ادارہ “”افراد کی انفاردی محنت سے اجتماعی کامیابی دکھاتا ہے اور اپنے ملک کو دوسرے ممالک کے سامنے منواتا ہے . کاش ارباب اختیار سوچیں کہ یہ وقت پاکستان کی بلندی کے سفر کی ابتداء ہے اسے جاری و ساری رہنا ہے 2016 تبدیلی کا سال ہے . ہر محکمے ہر ادارے کی کارکردگی سے اس سال پاکستان کو حقیقی معنوں میں بلند دکھانا ہے .
گھریلو کرکٹ یا گھریلو ادارہ بنا کر اس کی افادیت کو محدود کر کے نہیں دکھانا .خُدا پاکستانی قوم کوکرکٹ کے میچز کے دوران صبر دے اور فہم بھی کہ کسی مایوس کُن صورتحال میں کرکٹ کیلئے جزباتی ہو کر توڑ پھوڑ سے گریز کریں .ملک میں سیاسی ناکامیوں کا غصہ ہوا کرکٹ کی آڑ میں نہ نکالیں مثبت رویے باوقار قوموں کی پہلی شناخت ہیں آئیے عہد کریں کہ آج کی کامیابی کا جشن منانے والے کل ہونے والی کسی بھی ناکامی پر کرکٹ کیلئے خطرناک رویہ نہیں اپنائیں گے بلکہ ہار جیت کھیل کا بنیادی پہلو ہے
Pakistan India Cricket
اس کو ذہن میں ضرور جگہ دیں گے پاکستان انڈیا ٹی ٹوئنٹی کھیلنے جا رہا ہے یا نہیں 48 گھنٹوں تک انتہائی غیریقینی صورتحال تھی انتہائی اعصاب شکن دن تھے ایسے میں کھلاڑی کیا کاردگی دکھا سکتا ہے؟ جس کے سامنے درجنوں ٹی وی چینلز چیخ و پکار کر رہے ہوں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے؟ کیا کھیلے گا جسے بال کو ہٍٹ کرتے ہوئےہزاروں کے مجمعے میں کسی جانب سے نادیدہ گولی کا ڈر ہو؟ جسے یہ علم ہو کہ جہاں وہ جا رہا ہے وہاں شیو سینا ا ور عام آدمی مل کر اس کی جان کیلئے خطرہ ہیں .
کسی حادثے کی صورت میں نمٹا تو حکومتی سطح پر بعد میں جائے گا مگر جس کی جان چلی گئی اس کے اہل خانہ کا نقصان کون پورا کرے گا؟ سوچئیے کہ آج ہمیں ہر جگہ ہر لمحہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کرکٹ محض کھیل ہے کھلاڑی انسان ہیں اچھا برا کھیل دیکھنے کیلئے خود کو تیار کریں جیت ہو تو بہت اچھی بات ہے اور اگر ہار ہو تو اسکو برداشت کر کے کھلاڑیوں کی نفسیاتی کیفیت کو سامنے رکھیں ہار کواعصاب پر سوار کر کے ملک کا نظم و نسق تباہ نہیں کرنا امید ہے اہل ذوق متفق ہوں گے کرکٹ دیکھتے ہوئے سوچنا ہوگا